اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایران کے خلاف پابندیوں کے معاملے پر ایک اہم اجلاس منعقد ہوا، جس میں چین اور روس کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد اکثریتی رائے سے مسترد کر دی گئی۔ اس قرارداد کا مقصد 2015 کے ایران نیوکلیئر معاہدے (JCPOA) کے تحت دی گئی رعایتوں میں توسیع کرنا تھا۔
قرارداد کی ناکامی کے بعد ایران پر عائد وہ تمام پابندیاں دوبارہ نافذ العمل ہو گئی ہیں جو نیوکلیئر ڈیل کے تحت عارضی طور پر معطل کی گئی تھیں۔ سلامتی کونسل کے 15 رکنی اجلاس میں سے 9 اراکین نے قرارداد کے خلاف ووٹ دیا، 4 نے حمایت کی، جبکہ 2 رکن اجلاس میں شریک ہی نہیں ہوئے۔
روس کے نائب مستقل مندوب دیمتری پولیانسکی نے اجلاس کے دوران سخت موقف اختیار کیا اور کہا کہ ماسکو ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کرنے کے عمل کو مسترد کرتا ہے۔ ان کے بقول یہ اقدامات غیر قانونی اور ناقابلِ عمل ہیں۔ انہوں نے یورپی ممالک پر الزام لگایا کہ وہ جان بوجھ کر نیوکلیئر معاہدے کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔
غزہ کیلیے کچھ نہ کرنے پر تاریخ اور آئندہ نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی: بنگلادیشی صدر
ایران کی جانب سے بھی شدید ردعمل سامنے آیا۔ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ وہ پابندیوں کے نفاذ کو غیر قانونی قرار دے۔ انہوں نے امریکا پر سفارت کاری کو سبوتاژ کرنے کا الزام عائد کیا، جبکہ برطانیہ، فرانس اور جرمنی پر معاہدے کو "دفن” کرنے کا دعویٰ کیا۔
ماہرین کے مطابق یہ پیش رفت مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کو ایک نئی سطح تک لے جا سکتی ہے اور عالمی سطح پر توانائی کی منڈیوں اور سفارتی تعلقات پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔