وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولین لیویٹ نے فلسطین کو ریاست تسلیم کیے جانے پر ردِعمل دیتے ہوئے اسے "حماس کے لیے انعام” قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے اقدامات سے نہ تو یرغمالیوں کی رہائی ممکن ہے اور نہ ہی ان سے جنگ کے خاتمے میں کوئی مدد ملے گی۔
ترجمان نے واضح کیا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی رائے میں فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے جیسے اقدامات غلط وقت پر غیر مؤثر فیصلے ہیں، جو موجودہ تنازعے کو سلجھانے کی بجائے مزید پیچیدہ بنا سکتے ہیں۔
دوسری جانب اقوامِ متحدہ میں اسرائیلی مندوب ڈینی ڈینن (Danny Danon) نے اقوام متحدہ کی جاری بات چیت کو "ڈھونگ” قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ 7 اکتوبر کے حملوں کے بعد دو ریاستی حل ایجنڈے سے خارج ہو چکا ہے۔ ان کے مطابق موجودہ حالات میں اسرائیل فلسطینی ریاست کے قیام پر کوئی سنجیدہ بات چیت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
یہ بیانات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب حال ہی میں فرانس نے فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کیا، جسے سعودی عرب سمیت متعدد مسلم ممالک کی حمایت حاصل ہوئی ہے۔ تاہم، امریکہ اور اسرائیل ان کوششوں کو بے وقت اور خطرناک قرار دے رہے ہیں۔
بین الاقوامی سطح پر یہ معاملہ اب مزید سیاسی اور سفارتی کشیدگی کا رخ اختیار کر رہا ہے، اور دو ریاستی حل کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اگر بڑی طاقتوں کا یہی مؤقف رہا تو مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کی امیدیں مزید دھندلا سکتی ہیں۔