کراچی: شہرِ قائد میں سڑکوں کی ابتر حالت اور ٹوٹ پھوٹ موٹر سائیکل سواروں اور رکشہ ڈرائیورز کے لیے بڑا عذاب بن گئی ہے، چھوٹے پتھروں اور گڑھوں کے باعث ٹائر پنکچر ہونا شہریوں کے لیے روز کا معمول بن گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق کراچی کی بیشتر شاہراہوں پر بارشوں کے بعد بڑے بڑے گڑھے پڑ گئے ہیں جبکہ سیوریج کے مسائل نے بھی سڑکوں کو مزید تباہ کر دیا ہے۔ نتیجتاً موٹر سائیکل اور رکشوں کے ٹائر بار بار پنکچر ہو رہے ہیں۔
اسی صورتحال میں لیاقت آباد کے رہائشی محمد سلیم نے منفرد انداز اپناتے ہوئے موبائل پنکچر شاپ قائم کر لی ہے۔ وہ اپنے رکشے میں ٹائر مرمت کی دکان لے کر جہاں ضرورت ہو، وہیں ہنگامی سروس فراہم کرتے ہیں۔ محمد سلیم کا کہنا ہے کہ پہلے وہ سندھی ہوٹل پر کرائے کی دکان میں کام کرتے تھے، مگر 25 ہزار روپے ماہانہ کرایہ اور بجلی کے بل کے باعث کاروبار خسارے میں چلا گیا، جس کے بعد گھر کے حالات اتنے خراب ہو گئے کہ فاقوں تک کی نوبت آ گئی۔ ان کی اہلیہ کے مشورے پر انہوں نے رکشے میں موبائل شاپ شروع کی جو اب ان کی روزی روٹی کا ذریعہ ہے۔
محمد سلیم نے مشورہ دیا کہ موٹر سائیکل سوار ایمرجنسی ٹیوب ساتھ رکھیں، جبکہ بڑی گاڑیوں والے جیک اور ویکیوم پمپ جیسی اشیاء لازمی ساتھ رکھیں تاکہ مشکل وقت میں سہولت رہے۔
سیلاب کے باعث موٹر وے ایم 5 پر 13 مقامات متاثر، مزید 5 پوائنٹس کو خطرہ
شہر کے بائیکرز بھی شدید پریشانی کا شکار ہیں۔ رائیڈر کا کام کرنے والے نوجوان بلال شفیق کے مطابق سڑکوں کی تباہ حالی کی وجہ سے روزانہ ٹائر پنکچر ہونے سے اخراجات بڑھ گئے ہیں۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ سڑکوں پر فوری استرکاری کی جائے۔
اسی دوران لیاقت آباد پل پر موبائل پنکچر شاپ پر پنکچر لگوانے آئی ایک طالبہ نجمہ شفیق نے کہا کہ خواتین بائیکرز کے لیے موٹر سائیکل سہولت تو ہے مگر سڑک کے بیچ میں پنکچر ہونا ایک بڑی مشکل بن جاتا ہے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ خواتین کو بھی پنکچر لگانا سیکھنا چاہیے تاکہ ہنگامی حالات میں پریشانی نہ ہو۔