نیو یارک، اقوامِ متحدہ کے انکوائری کمیشن نے پہلی بار غزہ میں اسرائیلی جارحیت کو نسل کشی (Genocide) قرار دیتے ہوئے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اسرائیل نے دانستہ طور پر فلسطینیوں کو جزوی یا مکمل طور پر تباہ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیلی حملوں میں گھروں، شیلٹرز اور محفوظ علاقوں کو نشانہ بنایا گیا، جہاں خواتین، بچے اور بزرگ سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں اکثریت عام شہریوں کی ہے، جنہیں جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا۔
اقوامِ متحدہ کی کمیشن کی سربراہ ناوی پیلی (Navi Pillay) کا کہنا تھا:
"ہم نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو، صدر اور سابق وزیر دفاع یواف گیلانٹ کے بیانات کا جائزہ لیا۔ یہی افراد اسرائیلی ریاست کے ترجمان تھے اور انہی کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ میں نسل کشی ریاستی سطح پر کی گئی۔”
رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ اعلیٰ اسرائیلی حکام نے نہ صرف ان حملوں کی حمایت کی بلکہ انہیں سیاسی اور عسکری سطح پر زور دے کر جاری رکھا۔
غزہ جنگ میں 21 ہزار فلسطینی بچے معذور ہوگئے، اقوام متحدہ کا لرزہ خیز انکشاف
دوسری جانب، اسرائیلی حکومت نے اقوام متحدہ کے کمیشن کی اس رپورٹ کو "جھوٹا، متعصب اور توہین آمیز” قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ اسرائیل نے تحقیقات کے آغاز سے ہی کمیشن کا بائیکاٹ کیا تھا۔
یہ رپورٹ عالمی سطح پر اسرائیل کے خلاف بڑھتی ہوئی تنقید اور قانونی کارروائی کے مطالبات کو مزید تقویت دے سکتی ہے، خاص طور پر ان ممالک میں جہاں انسانی حقوق کے حوالے سے سخت قانون سازی موجود ہے۔