نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد دوحہ میں ہونے والے ہنگامی عرب-اسلامی وزرائے خارجہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عرب-اسلامی ٹاسک فورس کے قیام کی تجویز دی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس فورس کا مقصد اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کی نگرانی اور ان کا تدارک کرنا ہونا چاہیے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ بار بار ایسے اجلاس بلانا اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل ایک مسلسل عالمی خطرہ بن چکا ہے۔ انہوں نے قطر پر اسرائیلی حملے کو بین الاقوامی قوانین اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا اور پاکستان کی طرف سے سخت ترین الفاظ میں مذمت کی۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ حملہ قطر کی خودمختاری کے ساتھ ساتھ سفارتی کوششوں پر حملہ ہے، کیونکہ قطر امریکا اور مصر کے ساتھ مل کر فلسطین میں جنگ بندی کی کوششوں میں مصروف تھا۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان، قطر کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتا ہے۔
وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ اسرائیل کی بڑھتی ہوئی جارحیت صرف فلسطین تک محدود نہیں رہی، بلکہ اب وہ پورے خطے کی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہا ہے، جس پر اسلامی دنیا کو متحد ہو کر مؤثر جواب دینا ہوگا۔
ایران کا مسلم ممالک سے اسرائیل کے خلاف مشترکہ آپریشن روم بنانے کا مطالبہ
اسحاق ڈار نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ اسرائیل کو جنگی جرائم پر جواب دہ ٹھہرائیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ میں اسرائیل کی رکنیت معطل کی جائے اور باب ہفتم کے تحت اس سے فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کا مطالبہ کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ غزہ میں انسانی امداد کی فوری اور بلا رکاوٹ فراہمی کو یقینی بنایا جائے، اور اقوام متحدہ کے اہلکاروں اور طبی عملے کا تحفظ کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ دو ریاستی حل کے لیے ایک مربوط اور وقت مقررہ سیاسی عمل دوبارہ شروع کیا جائے تاکہ پائیدار امن قائم کیا جا سکے۔
اسحاق ڈار نے اس بات پر زور دیا کہ او آئی سی کی قیادت میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں اسرائیلی جارحیت پر فوری بحث کی جائے اور تعزیری اقدامات پر بھی غور کیا جائے تاکہ اسرائیل کے غیر قانونی اقدامات کی حوصلہ شکنی ہو۔
اختتاماً انہوں نے کہا کہ پاکستان، بطور غیر مستقل رکن سلامتی کونسل، عرب اور اسلامی ممالک کے ساتھ مل کر فلسطینی عوام کے حقِ خودارادیت کے لیے عالمی حمایت کو متحرک کرتا رہے گا۔