امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا ہے کہ قطر میں حالیہ اسرائیلی حملے سے صدر ٹرمپ ناخوش ہیں اور اس کے باعث مذاکرات متاثر ہو سکتے ہیں، تاہم اس صورتحال کا امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے روبیو نے بتایا کہ قطر کے وزیراعظم سے ان کی مختصر بات چیت ہوئی تھی، مگر اب تک قطر اس نتیجے پر نہیں پہنچ سکا کہ وہ اتحادیوں سے کیا مطالبہ کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ امریکا قطر میں ہونے والی میٹنگ میں شریک نہیں ہوگا، البتہ قطر کے ساتھ تعلقات اور مختلف امور پر شراکت داری موجود ہے۔
روبیو نے کہا کہ امریکا کی توجہ اس بات پر مرکوز ہے کہ آگے کیسے بڑھنا ہے، کیونکہ حماس سے اب بھی نمٹنا باقی ہے اور خطے میں کوئی بھی حماس کو دوبارہ دیکھنا نہیں چاہتا۔
ایک سوال پر کہ کیا وہ اسرائیل سے کہیں گے کہ قطر پر دوبارہ حملہ نہ کرے؟ روبیو نے کہا کہ صدر ٹرمپ کا ردعمل ہی واضح کرتا ہے کہ انہیں یہ سب کچھ پسند نہیں آیا۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ اس سے امریکا-اسرائیل تعلقات متاثر نہیں ہوں گے۔ ان کے بقول، "ایسی چیزیں ہو جاتی ہیں جن پر ہم سو فیصد متفق نہیں ہوتے، مگر اس سے تعلقات کی نوعیت تبدیل نہیں ہوگی۔”
امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکا اسرائیل پر اثر رکھتا ہے مگر اسے لیوریج نہیں کہا جا سکتا، امریکا صرف اپنے اثر اور صدر ٹرمپ کے خیالات کا اظہار کرے گا۔
قطر پر حملہ، یو اے ای نے اسرائیل کو ایئر شو میں شرکت سے روک دیا
حماس پر حملے کے اثرات کے بارے میں روبیو نے کہا کہ اسرائیل سے بات ہوگی کہ اس اقدام کا یرغمالیوں کی رہائی، جنگ کے خاتمے اور خطے کے مستقبل پر کیا اثر ہوگا۔ ان کے مطابق صدر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ حماس کا خطرہ ختم ہو اور اگلا مرحلہ غزہ کی تعمیرنو اور سیکیورٹی کو یقینی بنانا ہے تاکہ حماس دوبارہ نہ لوٹ سکے۔
انہوں نے کہا کہ 48 یرغمالیوں کو فوراً رہا کیا جانا چاہیے تاکہ معاملہ ختم ہو اور اس کے بعد یہ دیکھا جائے کہ غزہ کی تعمیرنو کون کرے گا اور اس عمل کی ذمہ داری کس پر ہوگی۔
یہودی بستیوں کی توسیع اور فلسطینی ریاست کے مستقبل پر بات کرتے ہوئے روبیو نے کہا کہ مختلف ممالک بشمول یورپی ممالک اور کینیڈا کی جانب سے فلسطین کو تسلیم کرنے کے فیصلے پر اسرائیل نے ردعمل دیا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ایسے اقدامات کشیدگی میں اضافہ کر سکتے ہیں، اس لیے اس معاملے پر بھی اسرائیلی قیادت سے بات ہوگی۔