سوشل میڈیا پر پابندی مہنگی پڑگئی، نیپالی وزیراعظم پُرتشدد مظاہروں کے بعد مستعفی

تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا وٹس ایپ چینل جوائن کریں

نیپال کے وزیراعظم کے پی شرما اولی نے ملک بھر میں پُرتشدد مظاہروں، عوامی دباؤ اور سوشل میڈیا پر پابندی کے باعث اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ ان کے معاون پرکاش سلول نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ "وزیراعظم نے استعفیٰ دے دیا ہے”۔ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب دارالحکومت کٹھمنڈو سمیت کئی شہروں میں حکومت مخالف مظاہرے شدت اختیار کر گئے تھے۔

latest urdu news

مظاہرین نے کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے احتجاج کیا، جس دوران پولیس اور عوام کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ ان پُرتشدد جھڑپوں میں 19 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے۔ احتجاج اس وقت مزید خطرناک ہو گیا جب مشتعل افراد نے سیاستدانوں کے گھروں پر حملے کیے اور کئی مقامات پر آگ لگا دی گئی۔ مظاہرین پارلیمنٹ کی طرف بڑھنے کی کوشش کر رہے تھے، جسے روکنے کے لیے پولیس نے آنسو گیس، ربڑ کی گولیاں اور لاٹھی چارج کا سہارا لیا۔

پُرتشدد واقعات کے بعد حکومت نے سوشل میڈیا پر عائد پابندیاں ختم کر دیں۔ ان پابندیوں کے تحت فیس بک، انسٹاگرام، یوٹیوب سمیت 26 بڑے پلیٹ فارمز بند کیے گئے تھے۔ حکومتی موقف تھا کہ یہ اقدام جعلی خبروں اور نفرت انگیزی کو روکنے کے لیے اٹھایا گیا، لیکن عوام نے اسے اظہارِ رائے کی آزادی پر حملہ قرار دیا۔

وزیراعظم اولی نے استعفیٰ سے قبل اپنے بیان میں کہا کہ "ہر مسئلے کا حل پُرامن مکالمے میں ہے، تشدد نیپال کے مفاد میں نہیں”۔ ان کے اس بیان کو مبصرین نے حالات کو سنبھالنے کی ناکام کوشش قرار دیا۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ بحران نے نیپال میں برسوں سے موجود کرپشن، بے روزگاری اور سیاسی عدم استحکام کے خلاف عوام کے غصے کو اجاگر کر دیا ہے۔ وزیراعظم کے استعفے کے بعد ملک ایک نئے سیاسی بحران کی طرف بڑھ رہا ہے، جہاں مختلف سیاسی جماعتیں مستقبل کے لیے حکمتِ عملی طے کرنے میں مصروف ہیں۔

شیئر کریں:

ہمیں فالو کریں

frontpage hit counter