برطانیہ نے غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں اور انسانی بحران پر شدید ردِعمل دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اگر رواں ماہ تک جنگ بندی نہ ہوئی تو وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا باضابطہ اعلان کرے گا۔
برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے ایک سخت بیان میں کہا کہ غزہ میں جاری صورتحال ناقابل قبول ہے اور ہر گزرتا دن مزید تباہی اور انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بن رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ "غزہ میں جاری قحط قدرتی نہیں بلکہ یہ اکیسویں صدی میں انسان کا پیدا کردہ قحط ہے۔”
انہوں نے کہا کہ خوراک کی شدید قلت کے باعث غزہ میں 132,000 سے زائد 5 سال سے کم عمر بچے جان کے خطرے سے دوچار ہیں، جبکہ اسرائیلی حکومت مستقل طور پر امدادی سامان کی فراہمی سے انکار کر رہی ہے۔
ڈیوڈ لیمی نے اسرائیل سے فوری طور پر غزہ میں فوجی کارروائیاں روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ حالات کو بہتر بنانے کا واحد راستہ بلامشروط اور فوری جنگ بندی ہے۔ برطانیہ کا مؤقف ہے کہ انسانی حقوق کی پامالی اور اجتماعی سزا جیسے اقدامات عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ رہے ہیں۔
برطانوی پارلیمنٹ کے 60 ارکان کا فلسطین کو فوری ریاست تسلیم کرنے کا مطالبہ
مزید برآں، دنیا بھر میں نسل کُشی پر تحقیق کرنے والی سب سے بڑی تنظیم انٹرنیشنل جینوسائیڈ اسکالرز ایسوسی ایشن نے بھی غزہ میں اسرائیلی بمباری کو نسل کشی قرار دے دیا ہے، جو اس مسئلے پر بڑھتے ہوئے عالمی دباؤ کا مظہر ہے۔
یاد رہے کہ برطانیہ کے ساتھ ساتھ فرانس، بیلجیئم، آسٹریلیا اور کینیڈا بھی فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کے فیصلے کا عندیہ دے چکے ہیں، اور ان ممالک کی جانب سے اقوام متحدہ میں مشترکہ مؤقف اپنانے کا امکان بڑھ رہا ہے۔