وزیر دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ بارش اللہ کی رحمت ہے، لیکن ہم نے اپنے اعمال کی سزا خود بھگتی ہے۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ حالیہ سیلاب اور تباہی کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم نے نالوں، دریاؤں اور قدرتی آبی گزرگاہوں پر غیر قانونی تعمیرات کر کے پانی کے قدرتی راستے بند کر دیے۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ دریاؤں اور نالوں کی زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیز، ہوٹل، اور رہائشی کالونیاں بنائی گئیں جنہوں نے پانی کے بہاؤ کو روک دیا۔ سیالکوٹ سمیت دیگر علاقوں میں بھی دریا کے بیڈ پر آبادیاں قائم ہیں، جس کے نتیجے میں جب بھی بارش ہوتی ہے، تباہی آتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ان نقصانات کا الزام اللہ تعالیٰ پر ڈال کر خود کو بری الذمہ نہیں کر سکتے۔
وزیر دفاع نے مزید کہا کہ ہم ہمیشہ بڑے ڈیموں کے خواب دیکھتے رہتے ہیں، لیکن ان پر عملدرآمد میں دس سے پندرہ سال لگ جاتے ہیں۔ اگر ہم نے صرف بڑے منصوبوں کا انتظار کیا تو شاید بہت دیر ہو جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر گاؤں کے لیے چھوٹے ڈیم بنائے جائیں تاکہ پانی محفوظ ہو اور سیلاب سے بچاؤ بھی ممکن ہو۔ انہوں نے مومل ڈیم کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی نے اس کی تعمیر کی بات کی ہے، تو وہ ضرور بننا چاہیے۔
دریائے ستلج میں اونچے درجے کے سیلاب کا خدشہ، 9 اضلاع میں ہائی الرٹ جاری
انہوں نے زور دیا کہ ملک کو اب قومی آبی پالیسی کی ضرورت ہے، جس میں طویل المدتی منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ فوری عملی اقدامات بھی شامل ہوں۔ ساتھ ہی انہوں نے بلدیاتی نظام کی کمزوری پر بھی تنقید کی اور کہا کہ سیاسی جماعتیں بلدیاتی اداروں کو صرف اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ بلدیاتی انتخابات وقت پر نہیں ہوتے، اور نظام مفلوج رہتا ہے، جس کا نقصان براہ راست عوام کو ہوتا ہے۔
خواجہ آصف نے اختتام پر کہا کہ اگر ہم نے اپنی پالیسیوں پر نظرثانی نہ کی اور پانی کے قدرتی راستے بند کرنے کا عمل نہ روکا تو ہر بارش کے بعد ہمیں ایسی ہی تباہی دیکھنے کو ملے گی۔