پاکستانی میزائلوں کی کامیابی، امریکا کو اپنا میزائل پروگرام تیز کرنے پر مجبور کر دیا

تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا وٹس ایپ چینل جوائن کریں

امریکی جریدے بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان کی جانب سے جدید چینی میزائلوں کے کامیاب استعمال نے نہ صرف بھارت کی فضائی برتری کو چیلنج کیا بلکہ امریکا کو بھی اپنے فضائی دفاعی پروگرام پر نظرِ ثانی کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی فضائیہ نے چین کے تیار کردہ پی ایل-15 (PL-15) میزائل کا استعمال کرتے ہوئے بھارتی جنگی طیاروں کو 100 میل سے زائد فاصلے پر کامیابی سے نشانہ بنایا، وہ بھی بغیر اس کے کہ پاکستانی طیارے دشمن کے جوابی حملے کی زد میں آئیں۔

latest urdu news

یہ کارروائی نہ صرف خطے میں فضائی طاقت کے توازن کو متاثر کرنے والی ثابت ہوئی، بلکہ اس نے دنیا بھر میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے جدید فضائی ہتھیاروں کی اہمیت کو بھی اجاگر کر دیا۔

بلوم برگ کے مطابق، امریکی محکمہ دفاع (پینٹاگون) نے اس پیش رفت کو سنجیدگی سے لیا ہے۔ پینٹاگون کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین نے 2023 میں پی ایل-15 کا جدید ورژن پی ایل-17 (PL-17) بھی فعال کر دیا ہے، جو 400 کلومیٹر (248 میل) تک کے اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنا سکتا ہے۔

پاکستان کی اس دفاعی کامیابی کے بعد، امریکی فضائیہ اور بحریہ نے لاک ہیڈ مارٹن کے ساتھ تیار کیے جا رہے خفیہ ای آئی ایم-260 (AIM-260) میزائل پروگرام کے لیے مالی سال 2026 میں مجموعی طور پر 1 ارب ڈالر سے زائد کی فنڈنگ کی درخواست کی ہے۔

ای آئی ایم-260 جسے Joint Advanced Tactical Missile (JATM) بھی کہا جاتا ہے، کو F-22 اور F-35 جیسے جدید جنگی طیاروں کے اندرونی ہتھیار خانوں میں فٹ ہونے کے لیے ڈیزائن کیا جا رہا ہے۔ مستقبل میں اسے F-16، F-15 اور بغیر پائلٹ والے جدید جنگی طیاروں کے ساتھ بھی منسلک کیا جائے گا۔

امریکی فضائیہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ، "ہمارے ممکنہ مخالفین، جیسا کہ پاکستان نے PL-15 میزائل کے ذریعے دکھایا، تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔ ان خطرات سے نمٹنے کے لیے ایک ایسا جدید میزائل درکار ہے جو ہمیں فضائی برتری قائم رکھنے میں مدد دے سکے۔”

رپورٹ کے مطابق، امریکی فضائیہ نے 368 ملین ڈالر جب کہ بحریہ نے 301 ملین ڈالر کی اضافی فنڈنگ مانگی ہے، تاکہ یہ نیا میزائل موجودہ AIM-120 AMRAAM کی جگہ لے سکے، جو کہ 1993 سے امریکی فضائیہ کے زیرِ استعمال ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ 15 برسوں میں اس پروگرام پر 350 ملین ڈالر سے زائد خرچ کیے جا چکے ہیں اور لاک ہیڈ مارٹن کو اس منصوبے کا باقاعدہ ترقیاتی معاہدہ اگست 2017 میں دیا گیا تھا۔

شیئر کریں:

ہمیں فالو کریں

frontpage hit counter