معروف سینئر صحافی اور تجزیہ نگار سہیل وڑائچ نے ڈی جی آئی ایس پی آر کے حالیہ بیان پر ردِعمل دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ان کے کالم میں وہ نکات سرے سے موجود ہی نہیں جن کی تردید کی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ "جناب احمد شریف چوہدری قابل احترام شخصیت ہیں، لیکن شاید انہوں نے میرے کالم کو غلط انداز میں سمجھا۔”
سہیل وڑائچ نے اپنے بیان میں کہا کہ کالم کا عنوان "پہلی ملاقات” تھا، نہ کہ "انٹرویو”، اور اس تحریر میں فیلڈ مارشل کی طرف سے عمران خان، 9 مئی یا کسی معافی کی بات کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا تھا۔ ان کے مطابق، جس تقریر کا ذکر کیا گیا، وہ ایک بڑی عوامی تقریب تھی جس میں تقریباً 800 افراد موجود تھے اور گفتگو آف دی ریکارڈ نہیں تھی۔
انہوں نے سوشل میڈیا پر چلنے والی تنقید، الزامات اور ٹرولنگ کا بھی جواب دیا، خاص طور پر زلفی بخاری، فیصل واوڈا، حماد اظہر اور شہباز گل کی جانب سے لگائے گئے الزامات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کی جانب سے "غدار”، "ٹاؤٹ”، اور "خوشامدی” جیسے الفاظ استعمال کیے گئے، لیکن وہ ایسے ذاتی حملوں کا جواب نہیں دیں گے۔
"میں ایک عاجز صحافی ہوں، اور میرے گناہ پرانے ہیں”
سہیل وڑائچ نے طنزیہ انداز میں اپنے صحافتی سفر کا احوال بتاتے ہوئے کہا کہ اگر ان کے آج کے کالم کو جرم مانا جائے تو یہ پہلا نہیں۔ انہوں نے ماضی کے کئی واقعات کا ذکر کیا جن میں ضیاء الحق، جنرل مشرف، نواز شریف اور عمران خان کے ادوار میں ان کے کالموں اور انٹرویوز پر شدید ردعمل آیا۔ انہوں نے کہا کہ صحافی کی ذمہ داری ہے کہ جو سنے اور دیکھے، وہی لکھے، اور یہی وہ ہمیشہ کرتے آئے ہیں۔
"صحافت اور سیاست میں دیوار ہونی چاہیے، دروازہ نہیں”
انہوں نے زور دیا کہ سیاست اور صحافت دونوں جمہوریت کے اہم ستون ہیں لیکن ان کے درمیان ایک ناقابل عبور دیوار ہونی چاہیے۔ ان کے مطابق بدقسمتی سے کچھ سیاسی کارکنوں نے اس دیوار کو عبور کر کے صحافت کو نشانہ بنایا۔
اختلاف کا حق ہے مگر فاشزم قبول نہیں
سہیل وڑائچ نے کہا کہ کسی کو ان کی تحریر سے اختلاف ہو سکتا ہے، لیکن اختلاف کا مطلب یہ نہیں کہ صحافیوں کو دھمکیاں دی جائیں یا الزامات کی بنیاد پر خاموش کرایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ وقت گزرنے کے ساتھ سب کے چہرے بے نقاب ہوں گے اور تاریخ فیصلہ کرے گی کہ کون حق پر تھا۔