آسٹریلیا کے سابق کپتان، کوچ اور کرکٹ کی تاریخ کے اہم ترین معماروں میں سے ایک، باب سمپسن 89 برس کی عمر میں سڈنی میں انتقال کر گئے۔ ان کے انتقال پر دنیائے کرکٹ سوگوار ہے اور آسٹریلیا ایک عظیم کرکٹ شخصیت سے محروم ہو گیا ہے۔
باب سمپسن صرف ایک شاندار کھلاڑی ہی نہیں تھے، بلکہ ایک ایسا رہنما اور وژنری کوچ بھی تھے جنہوں نے آسٹریلوی کرکٹ کو نئی سمت عطا کی۔ ان کی رہنمائی میں آسٹریلیا نے 1987 میں اپنا پہلا ون ڈے ورلڈ کپ جیتا، جبکہ 1989 کی ایشز سیریز میں بھی فتح حاصل کی وہ بھی انگلینڈ کی سرزمین پر۔
باب سمپسن نے اپنا ٹیسٹ کیریئر 1957 میں جنوبی افریقہ کے خلاف آغاز کیا۔ وہ آسٹریلیا کے نمایاں اوپنرز میں شمار کیے جاتے تھے۔ 1957 سے 1978 تک انہوں نے 62 ٹیسٹ میچوں میں 46.81 کی اوسط سے 4,500 سے زائد رنز اسکور کیے، جن میں ان کی مشہور ترین اننگز 1964 میں انگلینڈ کے خلاف مانچسٹر ٹیسٹ میں 311 رنز کی یادگار کارکردگی تھی۔
ان کی فیلڈنگ خاص طور پر سلپ میں اور ان کی لیگ اسپن بولنگ کو بھی کرکٹ حلقوں میں سراہا جاتا تھا۔ اگرچہ انہوں نے 1968 میں ریٹائرمنٹ لے لی تھی، مگر 1977 میں ‘ورلڈ سیریز کرکٹ’ کے دور میں ایک مرتبہ پھر ٹیم کی قیادت سنبھالی اور شاندار انداز میں واپسی کی۔
کوچنگ کی دنیا میں باب سمپسن نے 1986 میں آسٹریلوی ٹیم کو سنبھالا، جب ٹیم سخت بحران کا شکار تھی۔ ایلن بارڈر کی قیادت اور باب سمپسن کی کوچنگ نے ایک نئی کرکٹنگ ثقافت کی بنیاد رکھی نظم و ضبط، فٹنس اور پیشہ ورانہ مہارت۔ انہی کی تربیت کے زیرِ اثر آسٹریلیا نے بعد ازاں اسٹیو وا، شین وارن، گلین میک گرا اور دیگر لیجنڈز جیسے عالمی معیار کے کھلاڑی پیدا کیے، جنہوں نے 90 کی دہائی میں آسٹریلیا کو عالمی کرکٹ پر حاوی کر دیا۔
باب سمپسن کی خدمات نہ صرف کھلاڑی کے طور پر، بلکہ ایک معمار کوچ کی حیثیت سے بھی ناقابلِ فراموش ہیں۔ ان کا چھوڑا ہوا ورثہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک مستقل حوالہ اور تحریک رہے گا۔