سینئر صحافی و تجزیہ نگار سہیل وڑائچ نے وزیراعظم شہباز شریف کی سیاسی شخصیت، طرزِ حکمرانی اور حالیہ عوامی مصروفیات پر اپنے کالم میں اہم مشاہدات پیش کیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شہباز شریف نہ صرف نام کے "شریف” ہیں بلکہ کردار اور عمل میں بھی شرافت اور محنت کا پیکر ہیں۔
روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے کالم میں سہیل وڑائچ لکھتے ہیں کہ شہباز شریف ریاست کے اُس نازک مقام پر کھڑے ہیں جہاں ایک طرف ہائبرڈ نظامِ حکومت ہے تو دوسری طرف سیاسی کمزوریوں کی تلخ حقیقت۔ ان کے بقول، وزیراعظم اپنی چار دہائیوں پر مشتمل سیاسی بصیرت کی روشنی میں یہ سمجھتے ہیں کہ سویلین حکمرانی کی بحالی ممکن ہے، بشرطیکہ سیاستدان اور ادارے مل کر کام کریں۔
کالم میں سہیل وڑائچ نے ایک خاص واقعے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ حال ہی میں جب شہباز شریف نے لاہور سے کراچی کے لیے بزنس ایکسپریس ٹرین کا افتتاح کیا تو حیران کن طور پر پنجاب حکومت کا کوئی بڑا نمائندہ ان کے ساتھ موجود نہیں تھا۔ نہ وزیراعلیٰ پنجاب آئے، نہ چیف سیکریٹری، اور نہ ہی آئی جی پولیس نے شرکت کی۔
ان کے مطابق، وزیراعظم کی اس "خاموشی” اور پنجاب حکومت کی بے اعتنائی نے اس روایت کو ٹھیس پہنچائی جو فیڈریشن کے اتحاد کی علامت ہوا کرتی تھی۔ اگر یہی رویہ دیگر صوبے بھی اختیار کریں تو وفاق کی وحدت پر سوال اٹھ سکتے ہیں۔
سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ وفاقی کابینہ میں سیاسی نمائندوں کی تعداد انتہائی کم ہے، جبکہ پنجاب میں ماضی میں سیاستدانوں کا کردار غالب ہوا کرتا تھا۔ ان کے بقول وزیراعظم کی ٹیم، جسے وہ ’’پسندیدہ‘‘، ’’آزمودہ‘‘ اور ’’کرشمہ ساز‘‘ قرار دیتے ہیں، تاحال کوئی بڑا سیاسی کارنامہ سرانجام دینے میں ناکام رہی ہے۔
کالم میں شوگر اسکینڈل کا بھی حوالہ دیا گیا ہے، جس کے بارے میں سہیل وڑائچ نے سوال اٹھایا کہ جب یہ سب وزیراعظم کی ٹیم کے ہوتے ہوئے ہوا تو آخر اس کی ذمہ داری کون لے گا؟
کالم کے اختتام پر سہیل وڑائچ نے سابقہ روایات کا ذکر کرتے ہوئے یاد دلایا کہ جب نواز شریف سندھ کے دورے پر گئے تھے تو آصف زرداری نے بلاول بھٹو کو ان کا خیرمقدم کرنے بھیجا تھا۔ ایسی خیرسگالی ہی وفاق کی مضبوطی کی ضمانت ہوا کرتی ہے۔ اگر یہ روایت پنجاب میں ختم ہو جائے تو دوسرے صوبوں میں کیا پیغام جائے گا؟