کیا پاکستان واقعی بھارت کو تیل بیچ سکتا ہے؟

تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا وٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان میں "وسیع تیل کے ذخائر” سے متعلق حالیہ اعلان نے نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر ایک نئی بحث کو جنم دے دیا ہے۔

latest urdu news

صدر ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ٹروتھ سوشل” پر کہا کہ امریکا اور پاکستان تیل کے ایک بڑے منصوبے پر کام کر رہے ہیں، اور ممکن ہے کہ پاکستان ایک دن بھارت کو تیل برآمد کرے۔ اس بیان کے بعد توانائی، سفارت کاری اور سکیورٹی کے حوالے سے متعدد سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔

حقیقت کیا ہے؟

امریکی ادارے EIA اور ورلڈومیٹر کے مطابق، پاکستان کے پاس اب تک دریافت شدہ ثابت شدہ تیل کے ذخائر 353.5 ملین بیرل ہیں، جو دنیا میں 52 ویں نمبر پر آتے ہیں۔ پاکستان روزانہ تقریباً 88 ہزار بیرل تیل پیدا کرتا ہے، جبکہ اس کی یومیہ ضرورت 5 لاکھ 56 ہزار بیرل سے زائد ہے۔ یعنی 85 فیصد تیل درآمد کیا جاتا ہے۔ اس صورتحال میں بھارت کو تیل برآمد کرنے کی بات محض ایک مفروضہ نظر آتی ہے۔

پاکستان سے ٹریڈ ڈیل مکمل، امریکا پاکستان کیساتھ ملکر تیل تلاش کرے گا، ڈونلڈ ٹرمپ

ٹرمپ کا دعویٰ کہاں سے آیا؟

یہ بیانیہ حالیہ جغرافیائی سروے رپورٹس سے جڑا ہو سکتا ہے جن میں پاکستان کے ساحلی اور زمینی علاقوں — خاص طور پر لوئر انڈس بیسن اور Murray Ridge ، میں تیل و گیس کے امکانات ظاہر کیے گئے تھے۔ تاہم یہ صرف ابتدائی تخمینے ہیں جن کی سائنسی اور تجارتی تصدیق ہونا ابھی باقی ہے۔

او جی ڈی سی ایل اور وزارت توانائی نے اگرچہ سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں نئی دریافتوں کا دعویٰ کیا ہے، مگر ان میں سے کوئی بھی جگہ ایسی نہیں جہاں کمرشل پیمانے پر تیل کی پیداوار شروع ہو چکی ہو۔

بھارت کو تیل کی فروخت: خواب یا حقیقت؟

ماہرین کے مطابق، پاکستان کی موجودہ تیل پیداوار اور ریفائننگ صلاحیت اتنی محدود ہے کہ ملک اپنی اندرونی ضروریات بھی پوری نہیں کر سکتا۔ پاکستان کی روزانہ ریفائننگ صلاحیت تقریباً 4.5 لاکھ بیرل ہے، جو کہ ملکی ضرورت سے کم ہے۔ بھارت کو تیل فروخت کرنے کے لیے نہ صرف ذخائر کی تصدیق درکار ہے، بلکہ بنیادی ڈھانچے میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری بھی ضروری ہے — جس میں کھدائی، پائپ لائنز، ریفائنریز اور بندرگاہیں شامل ہیں۔

مزید یہ کہ پاکستان اور بھارت کے مابین سیاسی تعلقات کشیدہ ہیں۔ ایسے میں توانائی کی تجارت کا تصور فی الحال غیر حقیقی دکھائی دیتا ہے۔

اقتصادی اور سکیورٹی چیلنجز

پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر، بیرونی قرضوں، اور توانائی کے درآمدی بل کے پیش نظر، تیل کی بڑے پیمانے پر تلاش اور پیداوار میں سرمایہ کاری ایک بڑا چیلنج ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف ابتدائی ڈویلپمنٹ پر ہی کم از کم 5 ارب ڈالر درکار ہوں گے۔

امریکا سے تاریخی تجارتی ڈیل پر وزیراعظم شہباز شریف کا ڈونلڈ ٹرمپ کو شکریہ

اس کے علاوہ، اگر امریکی کمپنیاں بلوچستان یا گوادر کے قریب تیل کے منصوبے شروع کرتی ہیں، تو یہ چین کے لیے خطرے کی گھنٹی ہو سکتی ہے، کیونکہ چین پہلے ہی سی پیک کے تحت ان علاقوں میں بھاری سرمایہ کاری کر چکا ہے۔ اس صورت میں پاکستان کو امریکا اور چین کے درمیان سفارتی توازن قائم رکھنے میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔

نتیجہ: امید یا مبالغہ؟

ٹرمپ کا بیان پاکستان کے لیے وقتی توجہ کا باعث ضرور بنا، مگر زمینی حقائق اب بھی واضح ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک دریافت شدہ ذخائر تجارتی بنیادوں پر ترقی نہیں کرتے، بھارت کو تیل فروخت کرنے کا امکان صرف ایک سیاسی بیان ہی ہے، جو حقیقت سے کوسوں دور ہے۔

تاہم اگر طویل المدتی بنیادوں پر پائیدار پالیسی، سرمایہ کاری، اور سیاسی استحکام قائم رہے، تو یہ خواب ایک دن ممکن بھی ہو سکتا ہے — لیکن وہ دن ابھی بہت دور ہے۔

شیئر کریں:

ہمیں فالو کریں

frontpage hit counter