امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا خالصتان حامی رہنما گرپتونت سنگھ پنوں کو خط، بھارت کی خالصتان تحریک کو دبانے کی کوششوں پر بڑا جھٹکا، عالمی سطح پر نئی بحث کا آغاز۔
نیویارک، اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی جانب سے بھارت کے خالصتان مخالف مؤقف کو مکمل طور پر تسلیم نہ کیے جانے کے بعد بھارت کی خالصتان تحریک کو دبانے کی تمام سفارتی کوششیں ناکامی سے دوچار ہو گئی ہیں۔
بھارتی سفارت کاری کی ناکامی کا سب سے بڑا ثبوت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا وہ خط ہے جو خالصتان حامی تنظیم سکھ فار جسٹس کے رہنما گرپتونت سنگھ پنوں کو بھیجا گیا۔ گرپتونت سنگھ کو بھارت نے 2020ء میں دہشت گرد قرار دیا تھا، مگر امریکی صدر کی جانب سے لکھا گیا خط خالصتان تحریک کو بین الاقوامی سطح پر نئی تقویت دے رہا ہے۔
صدر ٹرمپ نے اپنے خط میں کہا کہ "میں اپنے شہریوں، اپنی قوم اور اپنی اقدار کو سب سے پہلے رکھتا ہوں، جب امریکا محفوظ ہوگا، تب ہی دنیا محفوظ ہوگی۔ میں اپنے شہریوں کے حقوق اور سلامتی کے لیے لڑنا کبھی نہیں چھوڑوں گا۔”
یہ خط ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب 17 اگست کو واشنگٹن میں خالصتان ریفرنڈم کا انعقاد ہونے جا رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کا بیان ریفرنڈم سے چند ہفتے قبل سامنے آنا نہ صرف سیاسی بلکہ سفارتی حلقوں میں بھی بڑی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔
خط میں صدر نے تجارت، دفاعی اخراجات، امریکی اقدار اور خارجہ پالیسی کے اہم نکات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ ان تمام پہلوؤں کو امریکی قوم کے مفاد میں دیکھتے ہیں، اور امریکی شناخت کے تحفظ کے لیے پرعزم ہیں۔
یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اب تک 27 بار پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کی خواہش اور ثالثی کی پیشکش کر چکے ہیں، جو مودی حکومت کے لیے ہمیشہ باعثِ شرمندگی بنی۔
یہ خط خالصتان تحریک کے عالمی سطح پر بڑھتے اثرات اور بھارت کی محدود ہوتی سفارتی چالوں کا عکاس بن چکا ہے۔