امریکا نے اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو (UNESCO) سے علیحدگی اختیار کرنے کا اعلان کیا ہے، جس کی وجہ ادارے پر اسرائیل مخالف مؤقف کو فروغ دینے کا الزام بتایا گیا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے ایک بیان میں کہا کہ یونیسکو کی پالیسیاں امریکا کے "قومی مفاد” اور "امریکا فرسٹ” خارجہ پالیسی سے متصادم ہیں۔ ان کے مطابق، "یونیسکو تعلیم، سائنس اور ثقافت کے نام پر ایک ایسے نظریاتی ایجنڈے کو فروغ دے رہا ہے جو عالمی سطح پر سماجی اور ثقافتی تفریق پیدا کرتا ہے۔”
ترجمان نے مزید کہا کہ یونیسکو کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا جانا ایک "سنگین پالیسی مسئلہ” ہے، جو امریکا کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ادارے میں "اسرائیل مخالف جذبات” کو جگہ دی جا رہی ہے، جو امریکی مفادات کے منافی ہے۔
امریکا کی یونیسکو سے علیحدگی کا اطلاق 31 دسمبر 2026 سے ہوگا۔ اس حوالے سے واشنگٹن نے ادارے کی ڈائریکٹر جنرل آدرے آزولے کو باضابطہ طور پر آگاہ کر دیا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ امریکا نے یونیسکو سے کنارہ کشی اختیار کی ہو — سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے بھی 2017 میں اسی نوعیت کے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے یونیسکو سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا، تاہم بعد میں امریکا دوبارہ اس کا رکن بن گیا تھا۔
امریکی فیصلے پر عالمی سطح پر ردعمل متوقع ہے، خاص طور پر ان ممالک کی جانب سے جو یونیسکو کو عالمی تعلیم، ثقافت اور ورثے کے تحفظ میں ایک کلیدی ادارہ سمجھتے ہیں۔