قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں 200 یونٹ بجلی استعمال کرنے والے صارفین سے متعلق اہم انکشافات اور بیانات سامنے آئے ہیں۔
اجلاس چیئرمین جنید اکبر خان کی زیر صدارت منعقد ہوا، جس میں وزارتِ توانائی اور پاور ڈویژن کے حکام نے بریفنگ دی اور بجلی مہنگی ہونے، اووربلنگ، اور سبسڈی سے متعلق سوالات کا جواب دیا۔
سیکریٹری پاور نے تصدیق کی کہ 200 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو دی جانے والی سبسڈی اب بھی برقرار ہے، تاہم "پروٹیکٹڈ کیٹیگری” ختم کرنے سے متعلق خبریں درست ہیں اور اس پر مرحلہ وار عمل جاری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت ملک بھر میں 18 ملین صارفین ایسے ہیں جو 200 یونٹ یا اس سے کم بجلی استعمال کرتے ہیں اور انہیں سبسڈی فراہم کی جا رہی ہے۔
چیئرمین پی اے سی جنید اکبر نے اجلاس میں سوال اٹھایا کہ اگر کسی صارف کا بجلی کا استعمال ایک بار بھی 200 یونٹ سے تجاوز کر جائے تو اگلے چھ ماہ تک اسے زائد نرخوں پر بل کیوں موصول ہوتے ہیں؟ انہوں نے اس پالیسی پر نظرثانی کا مطالبہ کرتے ہوئے وزارتِ توانائی سے مکمل بریفنگ طلب کر لی۔
شازیہ مری نے بھی شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا کہ جب ملک میں اضافی بجلی موجود ہے تو سندھ اور خیبر پختونخوا میں روزانہ 16 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟
200 سے 400 یونٹ استعمال کرنے والوں کیلئے ریلیف کی امید
اس پر سیکریٹری پاور کا کہنا تھا کہ موجودہ سبسڈی نظام طویل عرصے تک نہیں چل سکتا، اور حکومت 2027 تک سبسڈی کو بی آئی ایس پی کے ڈیٹا کے ذریعے ڈائریکٹ ٹارگٹ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
اجلاس میں آئی پی پیز (نجی بجلی پیدا کرنے والے ادارے) کی پیداوار اور ادائیگیوں سے متعلق آڈٹ رپورٹ بھی پیش کی گئی، جس کے مطابق 2015 میں آئی پی پیز کی مجموعی پیداوار 9765 میگاواٹ تھی، جو 2024 میں بڑھ کر 25642 میگاواٹ تک پہنچ چکی ہے۔ اس دوران ان کی سالانہ ادائیگی 141 ارب روپے سے بڑھ کر 1.4 ٹریلین روپے ہو چکی ہے۔
کمیٹی نے گنے کے پھوک سے پیدا ہونے والی بجلی کی رپورٹس پر بھی سوالات اٹھائے۔ چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ بجلی کی پیداوار میں 200 فیصد تک اضافہ دکھایا جانا ناقابلِ فہم ہے۔
تاہم سی پی پی اے حکام نے وضاحت کی کہ یہ اندازے بینچ مارک سے بہتر نکلے۔
سیکریٹری پاور کا کہنا تھا کہ 200 یونٹ سے ایک یونٹ زائد استعمال ہونے پر چھ ماہ تک زیادہ نرخوں پر بل وصول کرنے کی پالیسی پر نظرثانی کی جا رہی ہے، اور اس میں نرمی لانے پر غور جاری ہے۔