رانا ثناءاللہ کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی سیاسی مذاکرات نہیں چاہتی، ان کا اصل ہدف اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت ہے، وہ 2018 جیسے راستے پر واپس آنا چاہتے ہیں۔
اسلام آباد، وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناءاللہ نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے حکومت کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کی کوئی پیشکش نہیں کی گئی بلکہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے رابطے کی کوششوں میں ہیں۔ جیو نیوز کے پروگرام ’’جیو پاکستان‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے رانا ثناءاللہ نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کی خواہش ہے کہ ان کی رہائی عدالتوں کے ذریعے ہو، اور انہوں نے واضح کیا ہے کہ کسی سیاسی مذاکرات میں ان کی رہائی کی بات نہ کی جائے۔
رانا ثناءاللہ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی قیادت ملک میں سیاسی استحکام کی بجائے بدامنی اور انتشار کو فروغ دینا چاہتی ہے۔ ان کے بقول، علی امین گنڈاپور جیسے رہنماؤں کی گفتگو سے ظاہر ہوتا ہے کہ پارٹی کا ایجنڈا ملک میں عدم استحکام پیدا کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ وہی لوگ ہیں جو آئی ایم ایف کو خطوط لکھ کر پاکستان کو مالی امداد سے روکنے کی کوشش کرتے رہے ہیں، اور اگر دوبارہ ایسا کوئی عمل کیا گیا تو قانون اپنا راستہ خود اختیار کرے گا۔
رانا ثناءاللہ نے دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ سے ایسے ہی تعاون کی خواہاں ہے جیسا انہیں 2018 میں حاصل ہوا تھا، جب مبینہ طور پر آر ٹی ایس بٹھا کر انہیں اقتدار میں لایا گیا۔ ان کے بقول پی ٹی آئی نہ سیاستدانوں سے بات کرنے کو تیار ہے، نہ ہی کسی سیاسی جماعت کے ساتھ بیٹھنے کی خواہش رکھتی ہے۔
اگر پی ٹی آئی کا احتجاج پرامن نہ ہوا تو قانون اپنا رستہ لے گا، رانا ثناء اللہ
اس کے برعکس رانا ثناءاللہ نے کہا کہ حکومت تمام مسائل پر مذاکرات کے لیے تیار ہے بشرطیکہ پی ٹی آئی واقعی سیاسی ڈائیلاگ کی خواہاں ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت ملک کی معیشت کو بحال کرنا اور پاکستان کو ترقی یافتہ ریاست کے طور پر ابھارنا چاہتی ہے، جس کے لیے قومی اتفاق رائے ضروری ہے۔
پروگرام میں شریک پی ٹی آئی رہنما ملک عدیل اقبال نے بھی اپنی گفتگو میں کہا کہ 5 اگست تک تحریک کے لیے تیاری جاری ہے، تاہم قانون کی بالادستی کے لیے مذاکرات کے دروازے کھلے ہیں۔
یاد رہے کہ عمران خان اس وقت مختلف مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں اور ان کی جماعت شدید سیاسی دباؤ کا شکار ہے۔ ایسے میں رانا ثناءاللہ کے انکشافات نے ایک نئی بحث کو جنم دے دیا ہے کہ کیا پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے سیاسی حل تلاش کر رہی ہے؟ یا یہ محض سیاسی دباؤ کی ایک چال ہے؟