سیف الدین سیف کی شاعری آج بھی زندہ ہے، ان کے لکھے گیت اور اشعار فلمی و ادبی دنیا میں انمٹ نقوش چھوڑ گئے
لاہور، اردو ادب اور فلمی شاعری کی دنیا میں منفرد مقام رکھنے والے معروف شاعر، نغمہ نگار اور فلم ساز سیف الدین سیف کو بچھڑے آج 32 برس بیت گئے، مگر ان کے الفاظ اور خیالات آج بھی ان کے مداحوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ سیف الدین سیف 20 مارچ 1922ء کو امرتسر کے ایک ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کر کے لاہور آ گئے اور فلمی صنعت سے وابستہ ہو گئے، جہاں ان کی تخلیقی صلاحیتوں نے اردو فلم نگری کو کئی یادگار گیتوں سے نوازا۔
سیف الدین سیف نے فلم "ہچکولے”، "سات لاکھ”، "امراؤ جان ادا”، "انارکلی”، "نویلی دلہن”، "لختِ جگر”، "تہذیب”، "انجمن” اور "شمع پروانہ” سمیت متعدد فلموں کے لیے گیت تحریر کیے، جنہیں آج بھی کلاسک قرار دیا جاتا ہے۔ ان کے تحریر کردہ گیت جذبات، محبت، فراق اور زندگی کی گہرائیوں کو بڑی نفاست سے بیان کرتے ہیں۔ ان کی فلم "سات لاکھ” نے جہاں تجارتی کامیابی حاصل کی، وہیں ان کی تخلیق کردہ "کرتار سنگھ” نے تاریخی پس منظر پر مبنی فلم سازی کی ایک نئی جہت متعارف کرائی۔
فلمی مصروفیات کے باوجود سیف الدین سیف نے ادب سے اپنا رشتہ کبھی نہیں توڑا۔ ان کے شعری مجموعے "خمِ کاکل”، "کفِ گل فروش” اور "دور دراز” میں زندگی کے تلخ و شیریں تجربات، معاشرتی تضادات اور انسانی جذبات کو سادہ مگر پُراثر زبان میں بیان کیا گیا ہے۔ وہ حقیقت پسندی اور رومانویت کے حسین امتزاج کے شاعر تھے۔
سیف الدین سیف 12 جولائی 1993ء کو دنیا سے رخصت ہو گئے اور ماڈل ٹاؤن لاہور کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔ ان کی شاعری آج بھی محفلوں میں پڑھی، گنگنائی اور سراہی جاتی ہے، اور ان کے الفاظ آج بھی دلوں کو چھو جاتے ہیں۔
یاد رہے کہ** سیف الدین سیف نہ صرف فلمی دنیا کے بے مثال گیت نگار تھے بلکہ وہ اردو ادب کی ان شخصیات میں شامل تھے جنہوں نے فن اور فکر کو یکجا کر کے ایک لازوال ورثہ چھوڑا، جو آنے والی نسلوں کو ہمیشہ روشنی عطا کرتا رہے گا۔