ممبئی،بھارت کی مودی حکومت نے ایک بار پھر مسلمانوں کے مذہبی حق پر وار کرتے ہوئے ممبئی شہر میں مساجد سے لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے اذان دینے پر پابندی عائد کر دی ہے، جس کے بعد ملک بھر میں مسلمانوں کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ممبئی ہائی کورٹ کی noise pollution سے متعلق حالیہ ہدایات کے بعد یہ فیصلہ سامنے آیا، جسے ممبئی پولیس نے فوری طور پر نافذ کر دیا ہے، پولیس کمشنر دیون بھارتی نے دعویٰ کیا کہ یہ اقدام کسی ایک مذہبی کمیونٹی کو نشانہ بنانے کے لیے نہیں بلکہ شہر کو شور سے پاک بنانے کے لیے کیا گیا ہے، تمام مذاہب کے عبادت خانوں سے پبلک ایڈریس سسٹم کو ہٹا دیا گیا ہے۔
تاہم زمینی حقیقت اس بیان سے مختلف نظر آ رہی ہے، کیونکہ مقامی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ سب سے زیادہ اثر صرف مساجد پر پڑا ہے، اس اچانک پابندی کے بعد ممبئی کے ہزاروں مسلمان نماز کے اوقات سے باخبر رہنے کے لیے ڈیجیٹل ایپلی کیشنز اور دیگر متبادل ذرائع پر انحصار کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
اس فیصلے کے خلاف مزاحمت بھی شروع ہو گئی ہے، اطلاعات کے مطابق 5 مسلم مذہبی اداروں نے ممبئی ہائیکورٹ میں ایک مشترکہ درخواست دائر کر دی ہے، جس میں پولیس کی جانب سے لاؤڈ اسپیکر ہٹانے کے طریقہ کار کو چیلنج کیا گیا ہے۔ درخواست گزاروں کا مؤقف ہے کہ اذان محض عبادت کی پکار نہیں بلکہ ایک مذہبی حق ہے، جسے چھیننا آئینی آزادیٔ مذہب کے منافی ہے۔
یاد رہے کہ بھارت میں مودی سرکار کے قیام کے بعد مذہبی اقلیتوں، خصوصاً مسلمانوں کے خلاف اقدامات میں تیزی دیکھی گئی ہے، جن میں حجاب پر پابندی، گائے کے گوشت کی آڑ میں حملے، اور مساجد و مدارس پر پابندیاں شامل ہیں۔ ممبئی میں لاؤڈ اسپیکر سے اذان کی پابندی اسی سلسلے کی تازہ کڑی قرار دی جا رہی ہے۔