جسٹس (ر) شوکت صدیقی کا عدالتی نظام پر تفصیلی خطاب، اسلام آباد ہائی کورٹ کی تعیناتیوں، عمارت اور ویڈیو لنک سسٹم سے متعلق انکشافات۔
اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج، جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی نے ایک تقریب سے خطاب میں عدالتی نظام، تعیناتیوں، عدالت کی عمارت، اور ویڈیو لنک سسٹم سے متعلق اہم انکشافات اور تجاویز پیش کی ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو "فیڈرل ہائی کورٹ” کے بجائے "اسلام آباد” کی عدالت کے طور پر سمجھا جائے، لہٰذا اس میں ججز کی تعیناتی مقامی سطح پر ہونی چاہیے تاکہ شہریوں کے مسائل کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔
جسٹس (ر) شوکت صدیقی نے نیشنل انڈسٹریل ریلیشنز کمیشن (NIRC) کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ کمیشن کے 6 میں سے 5 بنچز کو جدید ویڈیو لنک سسٹم سے جوڑا جا چکا ہے، جس سے وکلا کو دوسرے شہروں کا سفر نہیں کرنا پڑتا اور وہ اپنے شہروں سے دلائل دے سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس اقدام سے ٹی اے/ڈی اے کی مد میں لاکھوں روپے کی بچت ہوئی ہے، جو اب ملازمین کی فلاح پر خرچ کیے جا رہے ہیں۔ صرف پشاور بنچ کو فی الحال ویڈیو لنک سے نہیں جوڑا گیا۔
انہوں نے 2012 میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی موجودہ عمارت کے قیام کی اندرونی کہانی بھی بیان کی۔ جسٹس (ر) صدیقی نے بتایا کہ اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اُن پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اور سی ڈی اے کے چیئرمین کے درمیان رابطہ کار مقرر کیا۔ ان کے مطابق، اس مقام کا انتخاب ان کی ذاتی کوششوں سے کیا گیا، اور انہیں پہلے ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ جگہ کئی اداروں کی نظروں میں ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ پلاٹ کے حصول، ڈیزائن اور کنٹریکٹ کی تفصیلات مکمل شفاف طریقے سے طے کی گئیں۔ عمارت کے ڈیزائن کے لیے باقاعدہ آرکیٹیکچرل مقابلہ کرایا گیا جس میں ملک بھر سے سیکڑوں ماہرین نے حصہ لیا۔ تاہم، بعد ازاں کنٹریکٹ میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں جن کی تفصیل انہوں نے فی الحال نہ بتانے کا فیصلہ کیا۔
جسٹس (ر) صدیقی نے افسوس کا اظہار کیا کہ عدالت کے لیے جو تھیم تجویز کی گئی تھی — یعنی روشن، ہوا دار اور کھلے ماحول والی عمارت — وہ حقیقت میں مکمل نہ ہو سکی۔ ابتدائی منصوبہ بندی کے مطابق، عمارت نومبر 2015 تک مکمل ہونا تھی، مگر کنٹریکٹ میں تبدیلی اور دیگر وجوہات کی بنا پر اس میں تقریباً پانچ سال کی تاخیر ہوئی۔
اپنے خطاب میں انہوں نے عدالتی نظام میں شفافیت، منصوبہ بندی اور مقامی نمائندگی کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کے شہریوں کے مسائل اور حساسیت کو وہی لوگ بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں جو یہاں کے ماحول سے واقف ہوں، لہٰذا ججز کی تعیناتی بھی مقامی سطح پر ہونی چاہیے۔
یاد رہے کہ جسٹس (ر) شوکت صدیقی عدالتی آزادی، اصول پسندی اور کھلے بیانات کے حوالے سے جانے جاتے ہیں، اور ان کے حالیہ انکشافات نے ایک بار پھر عدلیہ کے اندرونی نظام پر سنجیدہ مکالمے کی راہ ہموار کر دی ہے۔