مودی حکومت اسرائیل کی پراکسی کے طور پر خطے میں ایران مخالف نیٹ ورک چلا رہی ہے، بی ایل اے و کرد گروپوں کے ذریعے ایران و پاکستان میں عدم استحکام کی سازش جاری۔
اسلام آباد: ہنود و یہود کے گٹھ جوڑ نے مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے جغرافیائی و سیاسی توازن کو شدید خطرات سے دوچار کر دیا ہے، جہاں اسرائیل اور بھارت مشترکہ طور پر پراکسی نیٹ ورکس کے ذریعے خطے میں افراتفری، دہشت گردی اور عدم استحکام کو فروغ دے رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق نریندر مودی کی حکومت اب اسرائیل کی پراکسی کے طور پر فعال کردار ادا کر رہی ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بھارت کی خارجہ و دفاعی پالیسی عملاً اسرائیلی مفادات کے تابع ہو چکی ہے۔ دونوں ممالک ایران اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے نہ صرف خفیہ معلومات اور وسائل کا تبادلہ کر رہے ہیں بلکہ متحرک پراکسی گروپوں کو بھی براہِ راست امداد فراہم کی جا رہی ہے۔
ذرائع کے مطابق اسرائیل، ایران کے مغربی علاقوں میں اثر و رسوخ کم کرنے کے لیے کرد عسکری گروپوں کو مالی معاونت، جدید ہتھیار اور انٹیلیجنس فراہم کر رہا ہے۔ یہی کرد گروہ بی ایل اے جیسے کالعدم تنظیموں سے روابط قائم کرتے ہیں، جنہیں پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
سیکورٹی شواہد کے مطابق بی ایل اے کے کئی اہم سرغنہ بھارتی خفیہ ایجنسیوں سے براہِ راست فنڈنگ اور ٹریننگ حاصل کر چکے ہیں۔ مزید برآں، سوشل میڈیا پر متعدد بھارتی اکاؤنٹس سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کی پیشگی اطلاع “بریکنگ نیوز” کی صورت میں دی گئی، جن میں میانوالی ایئر بیس اور جعفر ایکسپریس پر حملے نمایاں ہیں۔
دوسری طرف کرد-اسرائیلی اتحاد اب کھل کر سامنے آ چکا ہے۔ کرد کمانڈر جنرل یزدانپنا کے اس بیان نے تہلکہ مچا دیا ہے، جس میں انہوں نے اسرائیل کو "دوست” اور ایران کو "مشترکہ دشمن” قرار دیا۔ یہ بیان دراصل خطے میں جاری پراکسی جنگ کے خفیہ عزائم کی عکاسی کرتا ہے۔
اسرائیل کرد علاقوں کو نہ صرف تربیتی اڈوں کے طور پر استعمال کر رہا ہے بلکہ انہیں ایران کے اندر کارروائیوں کے لیے “اندرونی سہولت” بھی فراہم کی جا رہی ہے۔ ایرانی حکام 2022 سے 2024 کے دوران متعدد مواقع پر اسرائیلی ایجنٹوں کی گرفتاری کا دعویٰ بھی کر چکے ہیں۔
ذرائع کے مطابق موساد کئی برسوں سے عراقی کردستان میں سرگرم عسکری و سیاسی گروپوں کو تربیت، جدید ٹیکنالوجی اور مواصلاتی ساز و سامان فراہم کر رہا ہے تاکہ ایران کے اندر مداخلت ممکن بنائی جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارتی خفیہ ایجنسیاں بھی اسرائیلی سائبر ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے اندرون و بیرون ملک ایک متحرک جاسوسی نیٹ ورک چلا رہی ہیں، جس میں صحافیوں، سفارت کاروں، اور حساس اداروں کے افسران کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ حالیہ برسوں میں ہنود و یہود کا یہ اتحاد مسلم دنیا کے لیے محض سفارتی یا نظریاتی چیلنج نہیں رہا، بلکہ یہ اتحاد اب براہِ راست جنگی اور پراکسی اقدامات کے ذریعے عالم اسلام کو غیر مستحکم کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔ بی ایل اے، کرد گروہ، اور دیگر پراکسی نیٹ ورکس اس “خاموش جنگ” کے اہم ہتھیار بن چکے ہیں۔ یہ صورتحال عالمی برادری کے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہے کہ اگر ان سرگرمیوں پر قابو نہ پایا گیا تو خطے میں وسیع تر تباہی اور بدامنی کا خطرہ شدید تر ہو جائے گا۔