ایران کی تین اہم جوہری تنصیبات پر امریکی فضائی حملوں کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ ایران نے ان حملوں کو بین الاقوامی قوانین کی "صریح خلاف ورزی” قرار دیتے ہوئے اپنے دفاع کا حق محفوظ رکھنے کا اعلان کیا ہے، جبکہ روس نے امریکی اقدامات کو "خطے کو ایک نئی جنگ میں دھکیلنے” کے مترادف قرار دیا ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی اعلیٰ سطحی مشاورت کے لیے ماسکو پہنچ چکے ہیں، جہاں وہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے ملاقات کریں گے۔ عراقچی کا کہنا ہے کہ "روس ایران کا قریبی دوست ہے، ہم اہم فیصلوں سے قبل مشاورت کرتے ہیں۔”
دوسری جانب، روس کی قومی سلامتی کونسل کے نائب چیئرمین اور سابق صدر دیمتری میدویدیف نے تہلکہ خیز دعویٰ کیا ہے کہ "کئی ممالک ایران کو اپنے جوہری وار ہیڈز فراہم کرنے کو تیار ہیں۔” اگرچہ میدویدیف نے ان ممالک کے نام ظاہر نہیں کیے، تاہم ان کا بیان بین الاقوامی سطح پر ہلچل مچا رہا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر کیے گئے حملوں کو واشنگٹن نے "ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکنے کے لیے ایک ضروری قدم” قرار دیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی اسرائیل کی قیادت میں جاری فضائی مہم کا حصہ ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ایران اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت اپنے دفاع کا مکمل حق رکھتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ "ہم ضرور جواب دیں گے۔ ان حملوں نے ایک بڑی سرخ لکیر کو عبور کیا ہے۔”
میدویدیف نے اپنی ٹیلگرام پوسٹ میں کہا کہ "ٹرمپ نے امریکا کو ایک نئی جنگ میں جھونک دیا ہے۔” ان کا کہنا ہے کہ امریکی حملے ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے میں ناکام رہے، اور یورینیم افزودگی سمیت دیگر سرگرمیاں بدستور جاری ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ "اسرائیل کی آبادی اب مسلسل خطرے میں ہے، ملک کے کئی حصے دھماکوں سے گونج رہے ہیں۔”
ایرانی وزیر خارجہ نے انکشاف کیا کہ حملے سے محض دو دن قبل جنیوا میں یورپی ثالثوں کے ساتھ مذاکرات جاری تھے۔ عراقچی کا کہنا تھا، "اس بار بھی فیصلہ امریکا نے کیا، نہ کہ ایران نے۔ امریکا نے سفارتکاری کو دھوکہ دیا۔”
ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اس صورتحال سے مشرقِ وسطیٰ ایک وسیع تر جنگ کی طرف بڑھ سکتا ہے، خاص طور پر اگر روس، چین یا دیگر ممالک ایران کی فوجی مدد کو وسعت دیتے ہیں۔