ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران پر حملے کے اعلان پر امریکی سیاست میں ہلچل مچ گئی، ڈیموکریٹ رہنما چک شومر اور اوکاسیو کورٹیز نے سخت تنقید کرتے ہوئے جنگی اختیارات کے غلط استعمال پر سوال اٹھا دیے۔
واشنگٹن، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات پر فضائی حملے کے اعلان کے بعد امریکی سیاست میں شدید ہلچل پیدا ہو گئی ہے۔ سینیٹ میں ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما چک شومر نے اس اقدام کو خطرناک اور غیر ذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے فوری طور پر وار پاورز ایکٹ نافذ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی ایک فرد، خواہ وہ صدر ہی کیوں نہ ہو، کو یہ اختیار نہیں دیا جا سکتا کہ وہ قوم کو جنگ میں جھونک دے۔
چک شومر نے کہا کہ صدر ٹرمپ کو کانگریس، عوام اور عالمی برادری کے سامنے وضاحت دینی ہو گی کہ ایران پر حملے کے فیصلے کے پیچھے اصل محرکات کیا تھے، حکمت عملی کیا ہے، اور یہ اقدام امریکی شہریوں کی سلامتی پر کیا اثر ڈال سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یکطرفہ فیصلے جمہوری اداروں کی توہین کے مترادف ہیں۔
اسی تناظر میں امریکی کانگریس کی نوجوان رکن الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز نے ٹرمپ کے اقدام کو آئینی خلاف ورزی اور مواخذے کے قابل جرم قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ حملہ کانگریس کے جنگی اختیارات کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے، اور صدر نے محض ذاتی جذبات اور سیاسی دباؤ کے تحت ایک ایسی جنگ چھیڑنے کا خطرہ مول لیا ہے جو دہائیوں تک امریکا کو الجھائے رکھ سکتی ہے۔
دوسری طرف ایران نے امریکی حملے کے جواب میں اسرائیل پر بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز کے ذریعے جوابی کارروائی کی ہے، جس کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہو گئے ہیں۔ یہ صورتحال خطے میں مزید کشیدگی کو جنم دے رہی ہے اور ایک بڑی جنگ کے امکانات بڑھا رہی ہے۔
یاد رہے کہ امریکا میں وار پاورز ایکٹ ایک ایسا قانون ہے جو صدر کو فوجی کارروائی کے لیے محدود وقت تک اجازت دیتا ہے، اور طویل جنگ کے لیے کانگریس کی منظوری لازمی ہوتی ہے۔ اس قانون کا مقصد یکطرفہ جنگی فیصلوں کو روکنا اور جمہوری نگرانی کو یقینی بنانا ہے، خاص طور پر ایسے حساس مواقع پر جب پوری دنیا کی نظریں امریکا پر جمی ہوں۔