ایران پر امریکی حملوں کے بعد دنیا بھر سے شدید ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ لاطینی امریکہ کے کئی ممالک نے واشنگٹن کی اس کارروائی کو غیر قانونی اور خطرناک قرار دیتے ہوئے واضح الفاظ میں مذمت کی ہے، جبکہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے نسبتاً محتاط مؤقف اختیار کرتے ہوئے سفارتی حل پر زور دیا ہے۔
کیوبا: اقوام متحدہ چارٹر کی کھلی خلاف ورزی
کیوبا کے صدر میگوئل دیاز کانیل نے کہا کہ امریکا کا یہ اقدام نہ صرف خطرناک حد تک کشیدگی کو ہوا دے گا بلکہ انسانیت کو ایک ایسے بحران میں دھکیل سکتا ہے، جس کے نتائج ناقابلِ تلافی ہوں گے۔ انہوں نے اسے اقوامِ متحدہ کے منشور کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا۔
چلی: طاقتور ہونا اصولوں سے انحراف کی اجازت نہیں
چلی کے صدر گیبریل بورِک نے ایک سخت ردعمل میں کہا کہ: "چاہے آپ کتنے ہی طاقتور کیوں نہ ہوں، یہ حق حاصل نہیں کہ آپ انسانی اصولوں کو پامال کریں۔”
انہوں نے امریکا کی کارروائی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی۔
میکسیکو: پرامن حل پر زور
میکسیکن وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ آئینی اور سفارتی اصولوں کے تحت خطے میں پرامن بقائے باہمی کی بحالی پر زور دیتے ہیں۔ بیان میں کہا گیا کہ: "ہم طاقت کا نہیں، مکالمے کا راستہ اپنانا چاہتے ہیں۔”
وینزویلا: جنگی کارروائیاں فوری بند کی جائیں
وینزویلا کے وزیر خارجہ ایوان گل نے کہا کہ امریکی بمباری ناقابلِ قبول ہے۔ انہوں نے اسے اسرائیل کی ایما پر کی گئی جارحیت قرار دیتے ہوئے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔
آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کا محتاط ردعمل
دوسری جانب آسٹریلیا نے امریکی حملے کی براہ راست مذمت کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ: "ایران کا بیلسٹک میزائل اور جوہری پروگرام عالمی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔”
آسٹریلوی حکومت نے کشیدگی کم کرنے اور سفارتی اقدامات پر زور دیا، تاہم امریکی فیصلے کو مکمل طور پر غلط بھی نہیں کہا۔
نیوزی لینڈ کے وزیر خارجہ ونسٹن پیٹرز نے بھی امریکی حملے پر تشویش کا اظہار کیا، لیکن واضح الفاظ میں مذمت نہیں کی۔ ان کا کہنا تھا: "ہم تمام فریقین پر زور دیتے ہیں کہ وہ فوری طور پر مذاکرات کی میز پر واپس آئیں۔ صرف سفارتکاری ہی خطے میں دیرپا امن لا سکتی ہے۔