ہفتہ, 7 جون , 2025

آسٹریلوی گائے کی قربانی جائز ہے یا نہیں؟

تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا وٹس ایپ چینل جوائن کریں

فقہی اصول ، افواہوں پر نہیں بلکہ تحقیق اور شرعی اصولوں پر مبنی ہوتے ہیں

latest urdu news

قربانی کے ایام میں بعض اوقات مختلف قسم کی افواہیں گردش کرنے لگتی ہیں ، جن میں ایک مشہور دعویٰ یہ بھی ہے کہ آسٹریلیا یا دیگر ممالک میں پالی جانے والی گائیوں کو کسی حرام یا ناپسندیدہ جانور کے نطفے سے مصنوعی طریقے سے حاملہ کیا جاتا ہے تاکہ زیادہ دودھ حاصل کیا جا سکے ، اس بنیاد پر بعض لوگ ان گائیوں کی قربانی کے جواز پر سوال اٹھاتے ہیں۔

یہ بات سمجھنی ضروری ہے کہ فقہ اسلامی میں کسی چیز کے حلال یا حرام ہونے کا فیصلہ افواہوں ، سنی سنائی باتوں یا قیاس پر نہیں ہوتا ، بلکہ شریعت کا اصول یہ ہے کہ یقین شک سے زائل نہیں ہوتا ، یعنی جب تک کسی بات کا قطعی اور معتبر ثبوت نہ ہو، اس پر شرعی حکم نہیں لگایا جا سکتا۔

جانور کی نسل کا اعتبار کس بنیاد پر ہوتا ہے؟
اسلامی فقہ کے مطابق کسی جانور کی شرعی حیثیت کا فیصلہ اس کی ماں (مادہ) کی بنیاد پر کیا جاتا ہے، نہ کہ باپ یا نَر کے نطفے کی بنیاد پر۔ چنانچہ اگر کسی پالتو جانور پر جنگلی جانور نے جفتی کی ہو، تب بھی پیدا ہونے والے بچے کا حکم ماں کے تابع ہوگا۔

 علامہ مرغینانی لکھتے ہیں؟

"اگر بھیڑیے نے بکری پر جفتی کی اور ان سے جو بچہ پیدا ہوا، وہ بھی بکری کی جنس میں شمار ہوگا اور اس کی قربانی جائز ہے، کیونکہ نسل کا اعتبار ماں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔”

اسی اصول کی بنیاد پر علامہ کاسانی فرماتے ہیں کہ قربانی صرف پالتو جانوروں (مثلاً گائے، بیل، بکری، اونٹ وغیرہ) کی جائز ہے، وحشی جانوروں کی نہیں، اور اگر ملاپ میں ایک فریق وحشی ہو لیکن ماں پالتو ہو، تو بچہ پالتو شمار ہوگا اور قربانی جائز ہوگی۔

آسٹریلوی گائے کی قربانی کا حکم
آسٹریلیا، یورپ یا کسی اور ملک میں پیدا ہونے والی گائے اگر شرعی طور پر حلال جانور (جیسے گائے یا بیل) کی نسل سے ہو اور وہ پالتو ہو، تو اس کی قربانی جائز ہے چاہے اس کی پیدائش میں مصنوعی نسل کشی کے طریقے استعمال کیے گئے ہوں۔

اگر اس میں کوئی نجاست، حرام جز، یا نسلی اعتبار سے حرام جانور شامل نہ ہو، تو وہ گائے شرعاً حلال ہے اور اس کا گوشت، دودھ اور قربانی سب جائز ہیں۔

شیئر کریں:

ہمیں فالو کریں

frontpage hit counter