برطانیہ نے اسرائیل کے ساتھ جاری تجارتی بات چیت کو معطل کر دیا ہے۔
برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے غزہ کی مسلسل ناکہ بندی کو "غیراخلاقی” اور "ناقابلِ جواز” قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی حکومت کے قابل مذمت اقدامات اور بیان بازی نے اسرائیل کو اپنے عالمی اتحادیوں سے دور کر دیا ہے۔
انہوں نے پارلیمنٹ میں اعلان کیا کہ اسرائیلی سفیر کو طلب کر کے تجارتی مذاکرات کی معطلی سے باضابطہ طور پر آگاہ کیا گیا ہے۔
اراکینِ پارلیمنٹ کی جانب سے سوال کیا گیا کہ اگر اسرائیل نے اپنی پالیسی نہ بدلی تو برطانیہ کی "سرخ لکیر” کیا ہو گی؟ اور جب بین الاقوامی برادری کی جانب سے روکنے کے وعدے ناکام ہوئے تو غزہ کے لیے وقت ختم ہوتا جا رہا ہے۔
جواب میں ڈیوڈ لیمی نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ برطانوی حکومت اسرائیل کے امدادی ماڈل کی سخت مخالفت کرتی ہے۔ ان کے مطابق یہ ماڈل نہ صرف انسانی اقدار کی خلاف ورزی ہے بلکہ امداد کی ترسیل میں ناکام اور خطرناک ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے اقوام متحدہ اور انسانی تنظیموں کا کردار محدود کرنا اور خود امداد کی تقسیم کا کنٹرول سنبھالنے کی تجویز ناقابلِ قبول ہے۔
ڈیوڈ لیمی نے خبردار کیا کہ غزہ میں لاکھوں افراد قحط کے دہانے پر ہیں اور اسرائیلی ناکہ بندی ایک سنگین ظلم بن چکی ہے،انہوں نے اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو سے مطالبہ کیا کہ وہ یہ پالیسی فوری ختم کریں، کیونکہ امداد کی روکاوٹ اور اتحادیوں کی تشویش کو نظر انداز کرنا ناقابلِ دفاع ہے۔
دوسری طرف، اسرائیلی فوج نے 2 مارچ سے غزہ کو مکمل محاصرے میں لے رکھا ہے۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر امداد فوری طور پر نہ پہنچی تو آئندہ 48 گھنٹوں میں تقریباً 14 ہزار فلسطینی بچے موت کے منہ میں جا سکتے ہیں، گزشتہ روز صرف 5 امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہو سکے، جنہیں بھی اسرائیلی افواج نے تقسیم کی اجازت نہیں دی۔
اس دوران، اسرائیلی حملے بھی جاری ہیں اور صرف آج کے دن مزید 73 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، واضح رہے کہ غزہ پر ممکنہ نئے حملے کے پیش نظر کینیڈا، فرانس اور برطانیہ نے اسرائیل کے خلاف عملی اقدامات اور پابندیاں عائد کرنے کی دھمکیاں دی ہیں۔
برطانوی وزیر خارجہ کا یہ مؤقف اس سے قبل بھی سامنے آ چکا ہے، جب انہوں نے واضح الفاظ میں غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا تھا، جس سے برطانیہ کے اسرائیل کے حوالے سے سخت رویے کی عکاسی ہوتی ہے۔