پاکستان کی سینیٹ کی داخلہ کمیٹی نے تعلیمی اداروں میں منشیات استعمال کرنے والے طلبہ کو سزا دینے سے متعلق بل کو بھاری اکثریت سے مسترد کر دیا ہے۔ اس بل میں طلبہ کو سزا، معطلی اور جرمانے کی تجاویز شامل تھیں، لیکن کمیٹی ارکان اور متعلقہ اداروں نے اسے غیر مؤثر اور سخت قرار دیا۔
یہ بل سینیٹر محسن عزیز کی جانب سے پیش کیا گیا تھا، جس میں تجویز دی گئی کہ اگر کسی طالب علم کا منشیات کا ٹیسٹ مثبت آئے تو پہلی بار صرف وارننگ دی جائے، دوسری بار 15 دن کے لیے معطل کیا جائے، اور تیسری بار جرم ثابت ہونے پر جرمانہ اور سزا دی جائے۔
تاہم اجلاس میں موجود انسداد منشیات فورس (اے این ایف) کے حکام نے اس تجویز کی مخالفت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ نشہ کرنے والے بچے مجرم نہیں بلکہ متاثرہ فریق ہیں، اصل مجرم وہ لوگ ہیں جو منشیات سپلائی کرتے ہیں۔ اے این ایف حکام نے یہ بھی بتایا کہ وہ ملک کے 80 فیصد تعلیمی اداروں میں سکیننگ کر چکے ہیں، لیکن طلبہ کا ڈرگ ٹیسٹ کروانا ان کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔
کمیٹی کے رکن سینیٹر شہادت اعوان نے بل پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اس قانون کی نوعیت صوبائی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے۔ وزارتِ قانون نے بھی یہی موقف اختیار کیا کہ یہ معاملہ انسداد منشیات فورس کا نہیں بلکہ محکمہ تعلیم کا ہے۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے بھی واضح کیا کہ نہ کوئی صوبائی حکومت، نہ وزارت تعلیم، اور نہ ہی تعلیمی ادارے اس بل کی حمایت کر رہے ہیں۔
بل کے محرک سینیٹر محسن عزیز نے اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے کہا کہ ان کا مقصد بچوں کو منشیات سے بچانا ہے، اس لیے وہ بل واپس نہیں لیں گے، چاہے کمیٹی اسے مسترد کر دے۔
آخرکار، سینیٹ کی کمیٹی نے ووٹنگ کے بعد اس بل کو اکثریتی رائے سے مسترد کر دیا۔