منگل کی شب پاکستان کے مختلف شہروں میں دھماکوں کی گونج سنائی دی تو شہریوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ چند ہی گھنٹوں میں تصدیق ہو گئی کہ بھارت نے پاکستان اور آزاد کشمیر کے متعدد علاقوں پر میزائل حملے کیے ہیں، جس سے خطے میں ایک بار پھر کشیدگی اپنے عروج پر پہنچ گئی ہے۔
بھارتی وزارت دفاع کا دعویٰ ہے کہ نو مختلف اہداف کو نشانہ بنایا گیا، جب کہ پاکستانی حکام کے مطابق یہ حملے چھ مقامات پر کیے گئے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق ان حملوں میں 31 افراد جاں بحق اور 57 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف اور فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری کے مطابق پاکستان نے فوری جوابی کارروائی میں پانچ بھارتی لڑاکا طیارے اور ایک ڈرون مار گرائے ہیں۔ تاہم بھارت نے اپنے کسی بھی طیارے کی تباہی کی سرکاری تصدیق نہیں کی، البتہ انڈین فوج نے یہ تسلیم کیا ہے کہ پاکستانی فائرنگ سے ایک فوجی اور دس شہری انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں ہلاک ہوئے۔
بین الاقوامی سطح پر تشویش
یہ واقعہ ایسے وقت پیش آیا ہے جب دنیا پہلے ہی یوکرین، غزہ اور دیگر خطوں میں جاری تنازعات سے دوچار ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان یہ حالیہ تصادم 2016 اور 2019 کے عسکری واقعات سے کہیں زیادہ سنگین نوعیت اختیار کر چکا ہے۔
امریکی تھنک ٹینک نیو لائنز انسٹیٹیوٹ سے وابستہ ڈاکٹر کامران بخاری نے بی بی سی اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس بار انڈیا نے کارروائی کی شدت بڑھائی ہے اور پنجاب جیسے علاقوں کو بھی نشانہ بنایا ہے، جو ماضی میں نسبتاً محفوظ سمجھے جاتے تھے۔‘‘
انھوں نے کہا، ’’پاکستان کی جانب سے انڈین طیاروں کو مار گرانا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اگر کوئی قیمت وصول کی جائے گی تو وہ معمولی نہیں ہوگی۔‘‘
قومی سلامتی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس
بدھ کی صبح وزیرِ اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اسلام آباد میں قومی سلامتی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس ہوا۔ اجلاس کے بعد جاری اعلامیہ میں کہا گیا کہ:
"اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت پاکستان کو اپنی خودمختاری کے دفاع میں کسی بھی وقت، جگہ اور انداز سے جواب دینے کا مکمل حق حاصل ہے۔”
فوج کو مکمل اختیارات دے دیے گئے ہیں تاکہ مستقبل میں کسی بھی جارحیت کا فوری اور فیصلہ کن جواب دیا جا سکے۔
ڈرونز کے ذریعے دراندازی کا الزام
جمعرات کو پاکستانی افواج نے مختلف شہروں میں گرائے گئے ڈرونز کا ملبہ برآمد کرنے کا دعویٰ کیا۔ پاکستانی فوج کے مطابق یہ ڈرونز بھارتی افواج کی طرف سے بھیجے گئے تھے، جب کہ انڈیا کا مؤقف ہے کہ یہ کارروائی پاکستان کی جانب سے انڈین تنصیبات کو نشانہ بنانے کی کوشش کے ردعمل میں کی گئی۔
پس منظر: ایک پرانا مگر خطرناک تنازعہ
یاد رہے کہ 2016 میں اُڑی حملے کے بعد انڈیا نے ’سرجیکل اسٹرائیکس‘ کا دعویٰ کیا تھا، اور 2019 میں پلوامہ حملے کے بعد بالاکوٹ میں کارروائی کی تھی۔ جواب میں پاکستان نے ایک بھارتی طیارہ مار گرایا تھا اور پائلٹ ابھی نندن کو گرفتار کر کے بعد میں رہا کیا گیا تھا۔
مگر اس بار کی صورتحال ماضی سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ دونوں ممالک ایٹمی طاقتیں ہیں، اور براہِ راست عسکری تصادم دنیا بھر کے لیے ایک ممکنہ خطرہ بن سکتا ہے۔
بھارتی الزام اور پاکستانی موقف
بھارت کا دعویٰ ہے کہ پچھلے مہینے پہلگام میں ہونے والے حملے میں پاکستانی شدت پسند گروہ ملوث ہے، تاہم پاکستان نے اس الزام کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔