اسلام آباد، سپریم کورٹ میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں کی سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث سے سوال کیا کہ "کیا فوجی عدالتوں کو حقیقت میں عدالتیں کہا جا سکتا ہے؟”
آئینی بنچ کی سربراہی جسٹس امین الدین خان کر رہے تھے، جس میں 7 ججز شامل تھے۔ خواجہ حارث نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فوجی عدالتیں قانون کے تحت قائم ہوئیں اور ان میں منصفانہ ٹرائل کی ضمانت دی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے پہلے بھی سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی اجازت دی ہے اور فوجی عدالتوں میں انصاف فراہم کرنے کے تمام طریقے موجود ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے اس پر ریمارکس دیے کہ "آرٹیکل 175 کو دیکھیں، یہ واحد آرٹیکل ہے جو عدالتوں کو جواز فراہم کرتا ہے۔” خواجہ حارث نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ فوجی عدالتیں آرٹیکل 175 میں نہیں آتیں اور وفاقی حکومت نے 1956 اور 1962 کے آئین کے تحت اس قانون کو بنایا۔
آئینی بنچ نے خواجہ حارث کو ہدایت کی کہ وہ کل تک اپنے جوابات مکمل کریں۔ سماعت کے دوران ججز نے اٹارنی جنرل کے حوالے سے بھی سوالات کیے، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اٹارنی جنرل کو کچھ مزید وقت درکار ہے۔
عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کر دی۔