ہفتہ, 15 مارچ , 2025

سپریم کورٹ میں سپر ٹیکس کیس کی سماعت، جسٹس محمد علی مظہر کے اہم ریمارکس

تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا وٹس ایپ چینل جوائن کریں

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپر ٹیکس کیس کی سماعت کی۔

اسلام آباد، سپریم کورٹ میں سپر ٹیکس کیس کی سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ سپر ٹیکس ایک مخصوص مقصد کے لیے نافذ کیا گیا تھا، کیا اسے ایک بار لاگو کرنے کے بعد ہمیشہ کے لیے جاری رکھا جائے گا؟

latest urdu news

کمپنیوں کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نے 2015 میں سپر لیوی ٹیکس متعارف کرایا، جس کا مقصد آپریشن ضرب عضب سے متاثرہ علاقوں کی بحالی تھا، حکومت نے منی بل کے ذریعے 2015 میں اسے ایک بار نافذ کیا، مگر یہ 2015 سے 2022 تک لاگو رہا۔

انہوں نے کہا کہ ابتدائی تخمینے کے مطابق 80 ارب روپے اکٹھے کیے جانے تھے، مگر یہ واضح نہیں کہ حکومت نے اس مد میں کتنی رقم جمع کی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ متاثرہ علاقوں کی بحالی کے لیے حکومت کے پاس کیا منصوبہ تھا؟ کیا اس حوالے سے کوئی مالی تخمینہ لگایا گیا تھا؟ اور کیا منی بل کے ذریعے سروسز پر ٹیکس نافذ کیا جاسکتا ہے؟

مخدوم علی خان نے وضاحت کی کہ حکومت پہلے ہی آمدن پر انکم ٹیکس وصول کر چکی تھی، اور دوہری ٹیکسیشن سے بچنے کے لیے اس کا نام سپر ٹیکس رکھا گیا، انہوں نے کہا کہ سماجی بہبود اب صوبوں کی ذمہ داری ہے، اور سپر ٹیکس صرف ایک سال کے لیے نافذ کیا گیا تھا۔ تاہم، وزیر خزانہ نے کبھی اس ٹیکس کی ریکوری اور اخراجات پر تفصیل فراہم نہیں کی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ سپر ٹیکس ایک بار نافذ کیا گیا تھا اور ایک خاص مقصد کے لیے تھا، تو کیا اسے ہمیشہ کے لیے جاری رکھا جائے گا؟

جسٹس امین الدین نے سوال اٹھایا کہ قومی خزانے سے صوبوں کی منظوری کے بغیر رقم کیسے خرچ کی جاسکتی ہے؟ اس پر ایف بی آر کے وکیل رضا ربانی نے مؤقف اختیار کیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک جاری عمل ہے، اور دہشت گردی سے متاثرہ افراد بے گھر ہوئے تھے۔

مخدوم علی خان نے سوال کیا کہ کیا 2020 میں دہشت گردی مکمل ختم ہو گئی تھی؟ اور اگر نہیں، تو پھر 2020 میں سپر ٹیکس کی وصولی کیوں بند کر دی گئی؟

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سپر ٹیکس آپریشن کے متاثرین کی بحالی کے لیے تھا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی کا سامنا روزانہ کی بنیاد پر کرنا پڑتا ہے، انہوں نے پوچھا کہ مجموعی طور پر کتنے افراد بے گھر ہوئے اور کن علاقوں سے؟

عدالت نے مزید سماعت کل تک ملتوی کر دی۔

شیئر کریں:
frontpage hit counter