اسلام آباد ہائیکورٹ نے شہری علی محمد کو مبینہ طور پر غیر قانونی حراست میں رکھنے کے کیس میں آئی جی اسلام آباد کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے شہری کی درخواست پر سماعت کی، جس میں ڈی ایس پی لیگل ساجد چیمہ عدالت میں پیش ہوئے۔
دوران سماعت جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ کیا متعلقہ پولیس افسران گرفتار ہوچکے ہیں؟ جس پر ڈی ایس پی لیگل نے جواب دیا کہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پولیس افسران کی شناخت کے لیے درخواست گزار کو بلایا گیا تھا لیکن وہ حاضر نہیں ہوئے، حتیٰ کہ کال اپ نوٹس کا بھی کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
درخواست گزار کے وکیل، شیر افضل مروت، نے مؤقف اختیار کیا کہ پولیس اہلکاروں کی جانب سے شہری کو حراست میں لینے کی سی سی ٹی وی فوٹیج موجود ہے، جس سے واضح طور پر شناخت ممکن ہے اور شناخت پریڈ کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اغوا برائے تاوان ایک سنگین معاملہ ہے اور اس پر سخت کارروائی ہونی چاہیے۔
وکیل نے مزید کہا کہ ایس ایچ او سیکریٹریٹ، ایس ایس پی اور دیگر متعلقہ افسران بدستور اپنے عہدوں پر موجود ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ معاملے میں محض رسمی کارروائی کی جا رہی ہے۔ اگر حقیقت میں تحقیقات ہوتیں تو یہ افسران معطل ہو چکے ہوتے۔ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ان کے پاس ایس ایس پی کی ایک کال ریکارڈنگ موجود ہے، جس میں پانچ لاکھ روپے لے کر کیس واپس لینے کی پیشکش کی گئی تھی۔
عدالت نے معاملے کی مزید سماعت 13 مارچ تک ملتوی کرتے ہوئے آئی جی اسلام آباد کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دے دیا۔