اسلام آباد ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی رہنما مشال یوسفزئی کی جیل میں داخلے پر پابندی کے خلاف دائر توہینِ عدالت کی درخواست کی سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل اور مشال یوسفزئی کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا، جس پر جسٹس سردار اعجاز نے ریمارکس دیے کہ آپ دونوں آپس میں کیوں الجھ رہے ہیں؟ یہ سب کہیں اور سے ہو رہا ہے، اور ہم اس مقام کا نام بھی نہیں لے سکتے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے مشال یوسفزئی کی درخواست پر سماعت کی، جس میں وہ اور اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ عدالت میں پیش ہوئے۔
دورانِ سماعت، سپرنٹنڈنٹ جیل نے وضاحت دی کہ عدالت کے احکامات کے مطابق، بانی پی ٹی آئی سے فہرست لے کر کوآرڈینیٹر کے ذریعے اجازت دی جاتی ہے، اس موقع پر ایس پی جیل نے بانی پی ٹی آئی کی تیار کردہ فہرست عدالت میں پیش کی، جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا یہ بانی پی ٹی آئی کے دستخط شدہ ہیں؟ ایس پی نے تصدیق کی کہ یہ فہرست بانی پی ٹی آئی نے خود تحریر کی ہے اور ان کے ہی دستخط موجود ہیں۔
مشال یوسفزئی نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ کبھی کسی کا نام نکال دیتے ہیں اور کبھی شامل کر لیتے ہیں، اس فہرست پر بھروسا نہیں کیا جاسکتا۔ بہتر ہوگا کہ ویڈیو لنک کے ذریعے بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی سے براہِ راست تصدیق کرلی جائے۔
ایس پی جیل نے وضاحت دی کہ جتنے بھی نام موصول ہوتے ہیں، حتمی منظوری بانی پی ٹی آئی ہی دیتے ہیں۔ اس پر مشال یوسفزئی نے کہا: "یہ ہر بار ایک نیا معاملہ کھڑا کر دیتے ہیں۔
اسی دوران جسٹس سردار اعجاز نے تبصرہ کیا کہ ہم سب ایک ہی کشتی کے سوار ہیں، جبکہ دوسری کشتی میں کوئی اور موجود ہے۔
ایس پی جیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ صرف انہی افراد کو اجازت دی جاتی ہے جن کو بانی پی ٹی آئی بلاتے ہیں۔ اس پر مشال یوسفزئی نے کہا کہ گزشتہ منگل کو وکلا کو بشریٰ بی بی سے ملاقات نہیں کرنے دی گئی، بعد میں جب انہوں نے احتجاج کیا تو بمشکل 10 منٹ کی ملاقات کرائی گئی، اگر فہرست واقعی بانی پی ٹی آئی کی ہے تو براہِ راست ان سے ہی تصدیق کیوں نہیں کی جاتی؟
عدالت نے ہدایت دی کہ مشال یوسفزئی کو لے جا کر بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی سے ملاقات کرائی جائے اور ان سے تحریری طور پر حاصل کیا جائے کہ وہ کس کیس میں وکیل ہیں۔ جن کیسز میں ان کے وکالت نامے موجود ہوں، ان میں انہیں اجازت دی جائے۔
ایڈووکیٹ جنرل نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا: "یہ روزانہ ایک نیا وکالت نامہ لے آتی ہیں۔
جسٹس سردار اعجاز نے ریمارکس دیے کہ آپ دونوں آپس میں کیوں لڑ رہے ہیں؟ کیوں نہیں سمجھتے کہ یہ سب کہیں اور سے ہو رہا ہے، اور ہم اس کا نام بھی نہیں لے سکتے، انہیں اپنے مؤکل سے ملاقات کرنے دیں، اگر وہ چاہیں تو اگلی فہرست میں ان کا نام شامل کر سکتے ہیں، اس وقت، میں اس درخواست کو نمٹا رہا ہوں۔
بعد ازاں، عدالت نے مشال یوسفزئی کی توہینِ عدالت کی درخواست پر سماعت آئندہ جمعہ تک ملتوی کر دی۔