کراچی، روشنیوں کا شہر، زندگی سے بھرپور، مگر ان روشنیوں کے سائے میں کئی تلخ حقیقتیں چھپی ہوئی ہیں۔
کراچی، روشنیوں کا شہر، زندگی سے بھرپور، مگر ان روشنیوں کے سائے میں کئی تلخ حقیقتیں چھپی ہوئی ہیں۔ ایک طرف افطار پارٹیاں، چمچماتے بازار، اور بڑے پیمانے پر زکوٰۃ و صدقات کی تقسیم، تو دوسری طرف فٹ پاتھوں پر ننگے پاؤں کھڑے بچے، مدد کے انتظار میں بھوکے پیٹ سونے والے افراد، اور خیرات کے نام پر جاری بے رحم کاروبار۔ رمضان آتے ہی کراچی ایک نیا روپ اختیار کر لیتا ہے، ہر سڑک، ہر چوراہے پر امدادی سرگرمیاں نظر آتی ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر ہر سال لاکھوں لوگ زکوٰۃ دے رہے ہیں، اگر ہر بڑی تنظیم ہزاروں مستحقین کی مدد کر رہی ہے، تو پھر غربت میں کمی کیوں نہیں آ رہی؟ کیا واقعی ضرورت مندوں تک امداد پہنچ رہی ہے، یا پھر کہیں کوئی ایسا کھیل کھیلا جا رہا ہے جو نظر نہیں آتا؟
یہ شہر اپنی فلاحی روایات کے لیے جانا جاتا ہے، جہاں چندہ دینا نیکی، زکوٰۃ ادا کرنا فرض، اور صدقہ خیرات ایک معمول کی بات ہے۔ لیکن جب لاکھوں روپے کا چندہ اکٹھا ہونے کے باوجود غریب مزید غریب ہوتا جا رہا ہے، تو کیا یہ سوال نہیں اٹھتا کہ یہ رقم آخر جا کہاں رہی ہے؟ رمضان میں کئی نام نہاد تنظیمیں سرگرم ہو جاتی ہیں، اشتہارات، بینرز، سوشل میڈیا مہمات— ہر طرف چندے کی اپیلیں نظر آتی ہیں، مگر یہ فلاحی سرگرمیاں سال کے باقی مہینوں میں کہاں غائب ہو جاتی ہیں؟ اگر واقعی اتنی امداد دی جا رہی ہے، تو فٹ پاتھوں پر سونے والے افراد کی تعداد میں کمی کیوں نہیں ہو رہی؟
ملٹری کورٹس کیس، ٹرائل کہیں بھی ہو کیا فرق پڑتا ہے، جسٹس جمال مندوخیل
ایک اور حقیقت وہ طبقہ ہے جو خیرات کو کاروبار بنا چکا ہے— پیشہ ور بھکاری، جعلی خیراتی ادارے، اور آن لائن چندہ مہمات جو مستحقین کی مدد کے بجائے کسی کے بینک اکاؤنٹ میں اضافہ کر رہی ہیں۔ ہر سال رمضان میں لاکھوں روپے کی خیرات تقسیم ہوتی ہے، مگر اس کا زیادہ تر حصہ کن ہاتھوں میں جا رہا ہے، اس پر کوئی نظر رکھنے والا نہیں۔ یہ صورتحال حکومت کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ وہ خیراتی نظام کو ریگولیٹ کرے، غیر مستند اداروں پر پابندی لگائے، اور یہ یقینی بنائے کہ زکوٰۃ اور صدقات اصل حقداروں تک پہنچیں۔
یہ سوال ہر سال اٹھایا جاتا ہے اور ہر سال دب جاتا ہے— کیا خیرات واقعی مستحقین تک پہنچ رہی ہے، یا یہ کسی مخصوص طبقے کی تجوریوں میں جا رہی ہے؟ اگر ہم نے اس معاملے پر سنجیدگی سے غور نہ کیا تو وہ وقت دور نہیں جب خیرات بھی ایک مکمل کاروباری صنعت بن جائے گی، جہاں لینے والے اور دینے والے دونوں کا کاروبار چمکے گا، مگر بھوکے پھر بھی بھوکے رہیں گے۔ وقت آ چکا ہے کہ اس نظام میں شفافیت لائی جائے، ورنہ کل ہم سب بھی اسی قطار میں کھڑے ہوں گے جہاں آج کے ضرورت مند کھڑے ہیں۔