ہفتہ, 15 مارچ , 2025

آرمی ایکٹ بنانے کا مقصد کیا تھا؟ یہ سمجھ آجائے تو آدھا مسئلہ حل ہوجائے گا، جج آئینی بینچ

تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا وٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد، فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے حوالے سے انٹرا کورٹ اپیل کیس میں آئینی بینچ کے جج جسٹس جمال مندوخیل کی جانب سے ریمارکس دیے گئے کہ آرمی ایکٹ بنانے کامقصد کیا تھا یہ سمجھ آجائے تو آدھا مسئلہ حل ہوجائے گا۔

سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ کی جانب سے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی گئی، جس دوران عمران خان کے وکیل عزیر بھنڈاری نے دلائل دیے۔

latest urdu news

وکیل عزیر بھنڈاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آرمی ایکٹ کالعدم ہوگیا تو بھی انسداد دہشتگردی کا قانون موجود ہے، ایک سے زائد فورمز موجود ہوں تو دیکھنا ہوگا کہ ملزم کے بنیادی حقوق کا تحفظ کہاں یقینی ہوگا، آئین کا آرٹیکل 245 فوج کو عدالتی اختیارات نہیں دیتا۔

جسٹس جمال مندوخیل کی جانب سے سوال کیا گیا کہ کیا کورٹ مارشل عدالتی کارروائی نہیں ہوتا؟ عزیر بھنڈاری نے جواباََ عرض کیا کہ کورٹ مارشل عدالتی اختیار ہوتا ہے لیکن صرف فوجی اہلکاروں کے لیے سویلینز کے لیے نہیں۔

جسٹس امین الدین کا کہنا ہے کہ سویلینز کی ایک کیٹیگری بھی آرمی ایکٹ کے زمرے میں آتی ہے، یہ تفریق کیسے ہوگی کہ کونسا سویلین آرمی ایکٹ میں آتا ہے اور کون نہیں؟

جسٹس مندوخیل نے اس معاملے میں ریمارکس دیے آئین میں فوج کو دو طرح کے اختیارات دیے گئے ہیں، ایک اختیار دفاع کا ہے اور دوسرا سول حکومت کی مدد کرنے کا۔

بیرسٹر سیف ہمیشہ تنقید کر کے خبروں میں زندہ رہنے کی بھونڈی کوشش کرتے ہیں، عظمیٰ بخاری

جسٹس امین الدین کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 245 والی دلیل مان لیں تو فوج اپنے اداروں کا دفاع کیسے کرے گی؟ جی ایچ کیو پر حملہ ہو تو کیا آرٹیکل 245 کے نوٹیفیکیشن کا انتظار کیا جائے گا؟

اس پر بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل نے جواب دیا کوئی گولیاں چلا رہا ہو تو دفاع کے لیے کسی کی اجازت نہیں لینا پڑتی، جب حملہ ہو تو پولیس اور فوج سمیت تمام ادارے حرکت میں آتے ہیں، سپریم کورٹ ماضی میں لیاقت حسین کیس میں یہ نکتہ طے کرچکی ہے، عدالت قرار دے چکی فوج اگر کسی حملہ آور کو گرفتار کرے گی تو سول حکام کے حوالے کیا جائے گا، فوج پکڑے گئے بندے سے متعلق سول حکام کی معاونت ضرور کرسکتی ہے۔

جسٹس نعیم افغان کی جانب سے سوال کیا گیا اگر فوجی اورسویلین مل کر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کریں تو ٹرائل کہاں ہوگا؟ وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ ایسی صورت میں ٹرائل انسداد دہشتگردی عدالت میں ہی ہوگا۔

جسٹس مندوخیل کا کہنا ہے کہ آرمی ایکٹ بنانے کا مقصد کیا تھا یہ سمجھ آجائے تو آدھا مسئلہ حل ہوجائے گا، آئین میں واضح لکھا ہے کہ آرمڈ فورسز سے متعلقہ قانون ہے، سویلین آفیسر کے خلاف تادیبی کارروائی میں سزا کا اختیار نہیں دیا گیا، ملٹری کورٹ میں سزا کا اختیار دیا گیا ہے، آرمی آفیسر چھٹی پر جرم سرزد کرے تو ٹرائل کہاں ہوگا؟ کیا ملٹری کورٹ کا اختیار بہت وسیع ہے یا محدود ہے؟ صوبائی دارالحکومت کراچی میں رینجرز اہلکاروں کا ٹرائل سول کورٹ میں ہوا۔

جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آئین پارلیمنٹ بناتی ہے، قانون سازی آئین کے مطابق ہی ہو سکتی ہے، کوئی قانون جو آئین سے مطابق نہ ہو نہیں بنایا جاسکتا، ہمارا المیہ یہی ہےکہ قانون کو سیاست کی نذر کردیا جاتاہے۔

عمران خان واحد سابق وزیراعظم ہیں جن کا جیل ٹرائل ہو رہا ہے، عمر ایوب

جسٹس مندوخیل کا کہنا ہے کہ سلمان اکرم راجہ نے بھارت میں کورٹ مارشل کے لیے الگ فورم کی بات کی تھی، اس پر جسٹس علی مظہر نے کہا کہ میری نظرمیں سلمان اکرم راجہ کا موقف مختلف تھا، جسٹس مندوخیل کا کہنا ہے کہ عدالت دلائل کی پابند نہیں، آئین کے مطابق خود بھی فیصلہ کرسکتی ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا ہے کہ کیا پارلیمنٹ پر حملہ ہوتو پارلیمنٹ ٹرائل کے لیے الگ عدالت بنائے گی؟ ایگزیکٹو اور عدلیہ کو آئین میں الگ الگ رکھا گیا ہے، ملٹری ٹرائل میں شکایت کنندہ خود ایگزیکٹو ہوتی ہے، کیا شکایت کنندہ اپنے معاملے کا جج ہو سکتا ہے۔

عزیر بھنڈاری کا کہنا ہے کہ اگر آرمی ایکٹ میں سویلین کے ملٹری ٹرائل کی اجازت دی گئی تو کل مزید جرائم آرمی ایکٹ میں شامل ہوجائیں گے، جسٹس امین الدین کا کہنا ہے کہ آپ آرٹیکل 245 کی دلیل دے رہے ہیں، وہ معاملہ ہی الگ ہے، جسٹس علی مظہر نے کہا آرٹیکل245 کے تحت فوج بلانے کا مطلب یہ ہرگزنہیں کہ عدالتیں چلانے کا اختیار بھی دے دیا جائے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کیا پرائم منسٹر کے آرڈر کو ہم کالعدم قرار دے سکتے ہیں؟ وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا عدالت ایسا کرسکتی ہے۔

جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے ویسے آج تک کسی وزیراعظم نے 5 سال مکمل نہیں کیے، جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا ہے کہ ایسا کوئی بہادر وزیراعظم نہیں آیا جس نے 5 سال مکمل کیے ہوں، جسٹس مندوخیل نے کہا ہم نے فوجی آمروں کو توثیق بھی دی۔

اسکے بعد آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سیویلینز کے ٹرائل کے حوالے سے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔

شیئر کریں:
frontpage hit counter