مارچ کے شرکا نے خواتین، مذہبی و صنفی اقلیتوں، اور دیگر پسے ہوئے طبقات کے حقوق کے تحفظ کا مطالبہ کیا۔
لاہور میں خواتین کے قومی دن کے موقع پر عورت مارچ کا انعقاد کیا گیا، جس میں خواتین، مذہبی و صنفی اقلیتوں، اور دیگر پسے ہوئے طبقات کے حقوق کے تحفظ پر زور دیا گیا۔ مارچ لاہور پریس کلب سے شروع ہوا اور شرکاء ایجرٹن روڈ سے گزر کر پنجاب اسمبلی کے قریب پہنچے، جہاں خواتین کو درپیش مسائل کو خاکوں اور گیتوں کے ذریعے اجاگر کیا گیا۔
عورت مارچ کے شرکاء نے مطالبہ کیا کہ پنجاب پروٹیکشن آف ویمن ایکٹ کو مؤثر طریقے سے نافذ کیا جائے اور کام کی جگہوں پر جنسی ہراسانی کے خلاف قائم کمیٹیوں کو مضبوط کیا جائے۔ انہوں نے جبری طور پر مذہب کی تبدیلی کے خاتمے اور مذہبی اقلیتوں سے متعلق قوانین پر عوامی مشاورت کے ساتھ نظرثانی کرنے پر بھی زور دیا۔
شرکاء نے خواجہ سرا اور صنفی اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور تشدد کے خاتمے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ افراد کو اپنی جنس کے تعین کا حق برقرار رکھنا چاہیے۔ انہوں نے آزادی اظہار پر سینسر شپ کے لیے فائر وال جیسی ٹیکنالوجی کے خاتمے، اسموگ کے مؤثر حل کے لیے پالیسی بنانے اور زرعی اراضی کو ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرنے والے منصوبوں کو بند کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔
گزشتہ برس کی نسبت اس سال عورت مارچ کے شرکاء کی تعداد خاصی کم رہی، جبکہ ماضی کی طرح کے انتظامات بھی نہیں کیے گئے تھے۔ تاہم، پولیس کی طرف سے سیکیورٹی کے فول پروف انتظامات کیے گئے، اور خواتین پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد تعینات تھی۔
مارچ کے دوران شرکاء نے ’میرا جسم میری مرضی‘ اور ’عورت کیا مانگے آزادی‘ کے نعرے لگائے۔ خواتین آرٹسٹوں نے مختلف گیتوں اور خاکوں کے ذریعے خواتین کے مسائل کو اجاگر کیا، جس سے مارچ کا مقصد مزید نمایاں ہوا۔
عورت مارچ سے قبل ویمنز ایکشن فورم اور عورت مارچ لاہور کی منتظمین نے لاہور پریس کلب میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے اپنے مطالبات پیش کیے۔ ویمنز ایکشن فورم کی کنوینر نائلہ ناز، بانی رکن خاور ممتاز، اور عورت مارچ کی نمائندہ نادیہ اور فاطمہ سمیت دیگر خواتین رہنماؤں نے چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا۔
خواتین رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ عورتوں، مذہبی، لسانی و صنفی اقلیتوں، اور سیاسی مخالفین کو عام زندگی سے مٹانے کے سلسلے کو ختم کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ان افراد کی جدوجہد کو مکمل سچائی کے ساتھ تعلیمی نصاب، عجائب گھروں اور تاریخی دستاویزات کا حصہ بنایا جائے تاکہ پدرشاہی اور ریاستی جبر کے خلاف ان کی مزاحمت کو تسلیم کیا جا سکے۔
عورت مارچ کے شرکاء نے آزادی اظہار پر سینسر شپ روکنے، جبری گمشدگیوں کے خاتمے، تمام جبری طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی، اور ہر شہری کو مساوی حقوق دینے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے آئی ایم ایف کے کہنے پر کیے جانے والے کفایت شعارانہ اقدامات کو ختم کرنے، تمام ورکرز کو گزارے لائق اجرت دینے، اور ایسے مالکان کے خلاف سخت کارروائی کرنے پر بھی زور دیا جو ورکرز کو مناسب اجرت نہیں دیتے۔
شرکاء نے حکومت سے فوری قانونی اور عملی اقدامات کا مطالبہ کیا تاکہ خواتین اور پسے ہوئے طبقات کو تحفظ اور مساوی حقوق حاصل ہو سکیں۔