کراچی: بحریہ ٹاؤن کے 17 ہزار ایکٹر سرکاری زمین پر قبضے کے معاملہ میں اہم پیشرفت سامنے آئی ہے۔
کراچی میں بحریہ ٹاؤن کی 17 ہزار ایکڑ سرکاری زمین پر قبضے کے معاملے میں بڑی پیشرفت سامنے آئی ہے۔ قومی احتساب بیورو (نیب) نے بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض اور ان کے بیٹے زین ملک کے خلاف احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کر دیا ہے۔ اس ریفرنس میں سابق وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ اور پانچ فرنٹ مینوں کے نام بھی شامل کیے گئے ہیں۔
نیب کا مؤقف:
نیب کے مطابق، بحریہ ٹاؤن نے سرکاری زمین پر غیر قانونی قبضہ کر کے وہاں بڑے پیمانے پر تعمیرات کیں، جس سے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا۔ نیب کا دعویٰ ہے کہ اس غیر قانونی قبضے کے باعث نہ صرف حکومتی زمین پر ناجائز تعمیرات ہوئیں بلکہ ملکی معیشت کو بھی شدید نقصان پہنچا۔
سپریم کورٹ اور سیٹلمنٹ:
یاد رہے کہ ملک ریاض نے 2019 میں سپریم کورٹ میں 460 ارب روپے کی سیٹلمنٹ کی یقین دہانی کروائی تھی، تاہم اس سیٹلمنٹ کے تحت صرف 24 ارب روپے قومی خزانے میں جمع کروائے گئے، جو کہ طے شدہ رقم سے بہت کم ہیں۔ سپریم کورٹ نے نیب کو ملک ریاض کے خلاف کارروائی کرنے کی اجازت دے دی تھی، جس کے بعد یہ ریفرنس دائر کیا گیا ہے۔
قانونی جنگ مزید سخت:
نیب کے ریفرنس میں ملک ریاض، ان کے بیٹے زین ملک اور دیگر فرنٹ مینوں کو بھی ذمہ دار قرار دیا گیا ہے، جنہوں نے اس دھوکہ دہی میں معاونت فراہم کی۔ اس کیس کی تحقیقات مزید گہرائی سے کی جائیں گی، جس سے بحریہ ٹاؤن کے کاروباری معاملات پر بھی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
عوامی ردعمل:
اس کیس کے بعد عوامی سطح پر کئی سوالات اٹھ رہے ہیں:
- کیا ملک ریاض اس کیس میں قانونی طور پر بچ نکلیں گے یا انہیں واقعی سزا دی جائے گی؟
- 460 ارب روپے کی سیٹلمنٹ کے بعد بھی کیس کا دوبارہ اٹھایا جانا کیا ظاہر کرتا ہے؟
- بحریہ ٹاؤن کے رہائشیوں پر اس کیس کا کیا اثر پڑے گا؟
یہ کیس پاکستان میں کرپشن کے خلاف جاری مہم میں ایک بڑا امتحان ثابت ہو سکتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا نیب اور عدلیہ اس معاملے میں کوئی ٹھوس کارروائی کرتے ہیں یا یہ معاملہ ماضی کی طرح صرف خبروں تک محدود رہے گا۔