چاچو نہیں جانا۔ سرائے عالمگیر کی 4 سالہ زہرہ کے آخری الفاظ جو سی سی ٹی وی کیمرے میں ریکارڈ ہوئے

تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا وٹس ایپ چینل جوائن کریں

انتباہ: اس تحریر میں موجود چند تفصیلات قارئین کے لیے پریشان کن ہو سکتی ہیں۔

’چاچو۔۔۔ چاچو نہیں جانا۔۔۔ نہیں جاؤں گی۔‘ پنجاب کی تحصیل سرائے عالمگیر کی چار سالہ زہرہ جنید کے یہ وہ آخری الفاظ ہیں جو سی سی ٹی وی کیمرے میں ریکارڈ ہوئے۔

latest urdu news

گجرات کی تحصیل سرائے عالمگیر کی چار سالہ ننھی زہرہ جنید 5 جنوری کی سہ پہر گھر سے اپنی خالہ کے گھر ٹیوشن پڑھنے جانے کے لیے نکلی تھی نہ واپس گھر نہیں پہنچی اور اگلے روز محلے کے ایک غیر آباد گھر سے اسکی بوری بند لاش ملی۔

تحصیل سرائے عالمگیر کی معصوم زہرہ جنید کی المناک کہانی نے نہ صرف ان کے والدین بلکہ پورے معاشرے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ زہرہ کی ہنسی خوشی بھری زندگی اچانک غم و اندوہ کی تصویر بن گئی جب وہ اپنے خالہ کے گھر جاتے ہوئے لاپتہ ہو گئی۔ اگلے روز ایک ویران مکان سے اس کی لاش برآمد ہونے کی خبر نے سب کو دہلا کر رکھ دیا۔

چار سالہ زہرہ کی معصومیت، اس کی والدہ صبا جنید کی دعائیں اور ان کے والد جنید اقبال کا اپنی بیٹی کے لیے بے پناہ پیار اس المناک سانحے کی درد بھری تصویر پیش کرتے ہیں۔ شادی کے 13 سال بعد پیدا ہونے والی زہرہ نہ صرف اپنے والدین کے لیے خوشیوں کا گہوارہ تھی بلکہ ان کے خوابوں اور دعاؤں کی تعبیر بھی تھی۔

ظلم اور قانون کا امتحان

زہرہ کی المناک موت کا واقعہ ایک غیر آباد مکان میں پیش آیا، جہاں اس کی لاش ایک بوری میں بند ملی۔ پولیس کی تفتیش اور سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے یہ واضح ہوا کہ زہرہ کو اغوا کر کے اس پر ظلم کیا گیا اور پھر لاش چھپا دی گئی۔ پولیس کی ابتدائی رپورٹ اور پوسٹ مارٹم کے مطابق، زہرہ پر جسمانی تشدد کے نشانات کے ساتھ ریپ کی تصدیق ہوئی۔

واقعے کی اطلاع ملتے ہی ڈی پی او گجرات نے خصوصی تفتیشی ٹیم تشکیل دی جس میں جدید ٹیکنالوجی کے ماہرین شامل تھے۔ سی سی ٹی وی فوٹیجز کی مدد سے پولیس نے علاقے کی مکمل جانچ کی اور مشتبہ افراد کی نشاندہی کی۔ جائے وقوعہ کے قریب موجود تمام گواہوں کے بیانات قلمبند کیے گئے۔ تفتیشی ٹیم نے علاقے کے دیگر غیر آباد گھروں کی بھی تلاشی لی تاکہ کسی بھی ممکنہ شواہد کو نظرانداز نہ کیا جا سکے۔

مزید برآں، پولیس نے ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے شواہد کو مضبوط کرنے کے لیے مقتولہ کی لاش اور جائے وقوعہ سے جمع کیے گئے نمونوں کا معائنہ کیا۔ پولیس حکام نے بتایا کہ کئی مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے اور ان سے تفتیش جاری ہے۔ آر پی او طیب حفیظ چیمہ نے میڈیا کو یقین دہانی کرائی کہ ملزمان کو جلد قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔

والدین کی فریاد اور معاشرتی ذمے داری

زہرہ کے والدین کی یہ اپیل کہ ان کی بیٹی کو انصاف ملے اور معاشرے میں ایسے جرائم کے خلاف سخت کارروائی ہو، ہر حساس دل کے لیے ایک پکار ہے۔ صبا جنید کے الفاظ، "زندگی کے چند سال تھے جو ہم نے خوشیوں کے گزارے، اب زہرہ ہماری زندگی ویران کر کے چلی گئی”، اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ان کا دکھ الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔

یہ واقعہ نہ صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے بلکہ پورے معاشرے کے لیے ایک سبق ہے کہ بچوں کے تحفظ کو اولین ترجیح دی جائے۔ زہرہ کی چیخیں اور چند ادھورے جملے ہمیں جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہیں کہ ہم بحیثیت قوم اپنی ذمے داریوں کو پہچانیں اور ان معصوم جانوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔

زہرہ جنید کی کہانی ہر والدین کے لیے ایک یاد دہانی ہے کہ بچوں کی حفاظت صرف انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی کوششوں کی متقاضی ہے۔ معصوم زہرہ کا حق صرف انصاف نہیں، بلکہ ایسے نظام کی تشکیل بھی ہے جو بچوں کو ہر طرح کے ظلم و ستم سے محفوظ رکھے۔ ہمیں اس المناک واقعے کو صرف ایک کہانی نہیں بلکہ ایک تبدیلی کا آغاز سمجھنا ہوگا۔

latest breaking news in urdu

شیئر کریں:
frontpage hit counter