اسلام آباد، سپریم کورٹ میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف اپیل پر آئینی بینچ کے سامنے سماعت جاری رہی، جسٹس مسرت ہلالی نے اہم سوال اٹھایا کہ اگر کوئی آرمی افسر آئین معطل کرے تو اس کے لیے کیا سزا مقرر ہے؟
سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ نے، جس کی سربراہی جسٹس امین الدین کر رہے تھے، انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت کی۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا کہ سپریم کورٹ نے آرمی ایکٹ کی سیکشن 59 (4) کو کالعدم قرار دیا ہے۔ جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے نشاندہی کی کہ آرمی ایکٹ میں جرائم کی تفصیلات درج ہیں اور ان کا اطلاق فوجی افسران پر ہوتا ہے۔
سماعت کے اہم نکات:
– خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ سویلینز کا ٹرائل آرمی ایکٹ کی سیکشن 31 ڈی کے تحت ہوتا ہے اور فوجی عدالتوں کو آئینی حمایت حاصل ہے۔
– جسٹس مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا سویلینز کے ٹرائل کو کورٹ مارشل کہا جاسکتا ہے؟
– جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ آرمی ایکٹ میں آئین معطل کرنے کی سزا کیا ہے؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت آئین معطل کرنے والوں کے لیے سزا مقرر ہے۔
– جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے دوران شواہد کا معیار کیا تھا اور کیا ملزمان کو دفاع میں گواہ پیش کرنے کی اجازت دی گئی؟
– جسٹس محمد علی مظہر نے بتایا کہ پرویز مشرف کیس میں ججز کے نام شامل کیے گئے تھے لیکن بعد میں نکال دیے گئے۔
ترمیمات کا اطلاق:
خواجہ حارث نے عدالت کو آگاہ کیا کہ آرمی ایکٹ میں ترامیم 11 اگست 2023 کو ہوئیں، جنہیں ماضی سے نافذ کیا گیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ کیا 9 مئی 2023 کے واقعات پر ان ترامیم کا اطلاق جائز ہے؟
عدالتی جائزہ:
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ سپریم کورٹ کو یہ اختیار ہے کہ وہ دیکھے کہ قانون شہادت کی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ کیس میں ٹرائل روکے بھی سپریم کورٹ نے تھے اور مشروط فیصلے سنانے کی اجازت بھی دی تھی۔
سماعت ملتوی:
جسٹس امین الدین نے خواجہ حارث سے کہا کہ وہ دلائل کو مختصر رکھیں اور کیسز کی تفصیلات پیش کریں کہ کون سے مقدمات فوجی عدالتوں کو منتقل ہوئے اور کیوں۔ عدالت نے سماعت کل تک ملتوی کر دی۔