اسلام آباد، چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال کی جانب سے انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان کے ٹاپ 5 فیصد سب سے زیادہ کمائی کرنیوالے افراد 16 کھرب روپے کا ٹیکس چوری کرتے ہیں، ان کیخلاف کارروائی کریں گے۔
پریس کانفرنس کے دوران چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال حکومت کا ٹیکس گیپ 7.1 ٹریلین روپے ہوگا جو گزشتہ سال 6.2 ٹریلین روپے تھا، حکومت کا ٹیکس وصولی فوکس سب سے زیادہ کمائی کرنے والے 5 فیصد افراد پر مرکوز ہے۔
راشد محمود لنگڑیال کے مطابق تقریباً 33 لاکھ افراد ٹاپ 5 فیصد کمائی کرنے والے طبقے میں آتے ہیں، ان میں سے صرف 6 لاکھ افراد ٹیکس گوشوارے جمع کراتے ہیں جبکہ باقی 27 لاکھ افراد انکم ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کراتے۔
چیئرمین ایف بی آر کی جانب سے یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ وہ یا تو اس کیٹیگری سے کم درجے کے گوشوارے فائل کررہے ہیں یا بالکل بھی گوشوارے فائل نہیں کر رہے، ان کی ٹیکس کی ذمہ داری 1.6 ٹریلین روپے سے زائد ہے، اگر حکومت تمام کیٹیگریز کو سب سے زیادہ کمائی کرنے والے 5 فیصد سے کم کردیتی ہے تو بھی مجموعی طور پر واجب الادا ٹیکس 140 ارب روپے سے زیادہ نہیں ہوں گے۔
آئی ایم ایف کی شرائط پر مکمل خلوص کے ساتھ عمل درآمد کرنے کے لیے، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے ایف بی آر میں ڈیجیٹائزیشن کے نفاذ کے لیے حکومت کی حکمت عملی کا اعلان کیا تاکہ اعلیٰ مالدار افراد کو ٹیکس نیٹ میں شامل کیا جا سکے۔
ایف بی آر نے اب تک 186000 اعلیٰ مالدار افراد کو ٹیکس نوٹسز بھیجے ہیں، جو خاطر خواہ اثاثے، آمدنی، اور گاڑیاں رکھتے ہیں لیکن مطلوبہ سطح پر ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ ملک کے سب سے مالدار 5 فیصد افراد، جن کی تعداد 670000 ہے، ممکنہ طور پر ٹیکس چوری کرتے ہیں اور اخراجات کرنے کے باوجود ٹیکس نیٹ میں شامل ہونے کی زحمت نہیں کرتے۔ یہ 0.6 ملین مالدار افراد ایف بی آر کے ریڈار پر ہیں۔
تاہم جب وفاقی وزیر خزانہ سے پوچھا گیا کہ کیا حکومت ایک منی بجٹ پیش کرے گی یا آئی ایم ایف کو ٹیکس وصولی کا ہدف کم کرنے پر قائل کرے گی تو انہوں نے براہ راست جواب نہیں دیا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت آئی ایم ایف کو اپنے خلوص کے ساتھ کیے گئے اقدامات دکھائے گی اور کچھ مفروضات میں تبدیلی آئی ہے کیونکہ مہنگائی میں تیزی سے کمی آئی ہے، آئی ایم ایف مشن کے ساتھ تمام تفصیلات ’نیک نیتی‘ سے شیئر کی جائیں گی۔
وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ قومی مالیاتی معاہدہ مرکز اور صوبوں کے درمیان طے پایا اور اسے وفاقی یونٹس کے تعاون سے نافذ کیا جائے گا، پنجاب اسمبلی نے زرعی آمدنی ٹیکس (اے آئی ٹی) قانون منظور کیا ہے جبکہ دیگر صوبے مختلف مراحل پر پیش رفت کر رہے ہیں۔
محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ ایف بی آر نے 29 فیصد کی آمدنی میں اضافہ حاصل کیا لیکن موجودہ مالی سال کے لیے ہدف 40 فیصد کی بلند سطح پر مقرر کیا گیا تھا۔
چیئرمین ایف بی آر کی جانب سے وضاحت کی گئی کہ 190000 نان فائلرز کو چھ عوامل کی بنیاد پر ترجیح دی گئی، جیسے کہ وہ جو سالانہ 1.3 ملین روپے بینک منافع کماتے ہیں، 3 یا اس سے زیادہ گاڑیاں رکھتے ہیں جن کی مجموعی قیمت 10 ملین روپے ہے۔
اسکے علاوہ سینیٹ قائمہ کمیٹی خزانہ نے ٹیکس قوانین ترمیمی بل کی منظوری دیدی ہے جس کے مطابق نااہل ٹیکس فائلرز بڑی بڑی گاڑیاں، جائیداد، بنگلے نہیں خرید سکیں گے بینک اکاؤنٹ کھولنے اور شیئرز کی خریداری پر بھی پابندی ہوگی۔