اسلام پولیس کی جانب سے صحافی مطیع اللہ جان کو گرفتار کر لیاگیا۔
اسلام آباد پولیس نے سینئر صحافی مطیع اللہ جان کی دہشت گردی کے مقدمے میں گرفتاری ظاہر کردی۔ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) اور کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ (سی پی جے) نے اس گرفتاری کی شدید مذمت کرتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
مطیع اللہ جان کے بیٹے کے مطابق ان کے والد کو گزشتہ رات پمز اسپتال کی پارکنگ سے نامعلوم افراد نے اغوا کیا تھا۔ ایف آئی آر کے مطابق، مطیع اللہ جان نے اسلام آباد میں ناکے پر پولیس اہلکاروں پر گاڑی چڑھانے کی کوشش کی، اہلکار کو زد و کوب کیا، اور سرکاری ایس ایم جی رائفل چھیننے کی کوشش کی۔ پولیس کے مطابق، گاڑی سے 246 گرام آئس بھی برآمد ہوئی، اور مطیع اللہ جان کو نشے کی حالت میں گرفتار کیا گیا۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اس اقدام کو آمرانہ حربہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ "صحافیوں کو خاموش کرنے کا یہ طریقہ ناقابل قبول ہے”۔ سی پی جے نے بھی شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
صحافی حامد میر اور دیگر نے مطیع اللہ جان کی گرفتاری کو آزادی صحافت پر حملہ قرار دیا۔ حامد میر کے مطابق، مطیع اللہ جان کی جرات مندانہ کوریج کے باعث انہیں نشانہ بنایا گیا ہے۔
یہ پہلی بار نہیں کہ مطیع اللہ جان کو نشانہ بنایا گیا ہو۔ جولائی 2020 میں بھی انہیں اغوا کیا گیا تھا، تاہم چند گھنٹوں بعد رہا کر دیا گیا تھا۔
مطیع اللہ جان کو آج عدالت میں پیش کیا جائے گا، جبکہ صحافتی اور انسانی حقوق تنظیمیں ان کی فوری رہائی کے لیے آواز بلند کر رہی ہیں۔