انقلاب، جدت اور شخصی آزادی کے علمبردار فیض احمد فیض کو کون بھول سکتا ہے۔ معاشرتی مساوات، انسانی حقوق کے علمبردار اور اردو کے عہد ساز شاعر فیض احمد فیض کو مداحوں سے بچھڑے 40 سال بیت گئے۔
بر صغیر کے اس عظیم شاعر نے 13 فروری 1911 کو سیالکوٹ کے ایک زمیندار جٹ گھرانے میں آنکھ کھولی۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے انگلش اور(اورنیٹل کالج لاہور) سے ایم اے عربی کیا۔
اردو ادب کے ناقدین غالب اور اقبال کے بعد فیض احمد فیض کو اردو کا سب سے بڑا شاعر مانتے ہیں۔
اپنی شاعری اور نثری تحریروں میں انہوں نے مظلوم انسانوں کے حق میں آواز اٹھائی اور انسان پر انسان کے جبر کو قبول کرنے سے انکار کیا۔
فیض احمد فیض ترقی پسند تحریک کے فعال رکن تھے، انہیں اپنے اشعار کے ذریعے جابر حکمرانوں کے مظالم کو عوام کے سامنے بے نقاب کرنے پر قید ہوئی اور جلا وطنی بھی کاٹی لیکن حق گوئی ترک نہ کی۔
انہوں نے فوج میں بطور کیپٹن محکمہ تعلقات عامہ میں کام کیا جہاں لیفیٹنٹ کرنل کے عہدے پر ترقی پائی, وہ ایم اے او کالج امرتسر میں لیکچرر بھی رہے، مختلف اخبارات اور ادبی رسالوں سے بھی وابستہ رہے۔
فیض کی معروف تصانیف میں نقش فریادی، دست صبا، زنداں نامہ، شام شہر یاراں، مرے دل مرے مسافر اور نسخہ ہائے وفا شامل ہیں۔
فیض احمد فیض کوعلمی و ادبی خدمات پر متعدد عالمی اور قومی اعزازات سے بھی نوازا گیا۔
فیض احمد فیض 20 نومبر 1984 کو جہاں فانی سے کوچ کر گئے اور لاہور میں آسودہ خاک ہیں۔ تاہم ہمیشہ جدت پسندی اور جمہوریت کی بات کرنیوالے فیض احمد فیض کی ترقی پسند سوچ آج بھی زندہ ہے۔