میلبورن یونیورسٹی کے بایومیڈیکل انجینئرز نے تھری ڈی بایوپرنٹنگ کے میدان میں ایک جدید بایوپرنٹر تیار کیا ہے، جو انسانی جسم کے مختلف اقسام کے ٹشوز کی عین نقل تیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
میلبورن یونیورسٹی کے بایومیڈیکل انجینئرز نے تھری ڈی بایوپرنٹنگ کے میدان میں ایک جدید بایوپرنٹر تیار کیا ہے، جو انسانی جسم کے مختلف اقسام کے ٹشوز کی عین نقل تیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جیسے دماغ کے نرم بافتوں سے لے کر کارٹیلج اور ہڈی جیسے سخت مواد۔ یہ نئی ٹیکنالوجی کینسر تحقیق کے لیے اہمیت رکھتی ہے کیونکہ اس سے مخصوص اعضاء اور بافتوں کی درست نقل ممکن ہوتی ہے، جس سے ادویات کی تیاری اور تحقیق میں نمایاں مدد مل سکتی ہے اور جانوروں پر تجربات کی ضرورت کو کم کیا جا سکتا ہے۔
کولنز بایو مائیکروسسٹمز لیباریٹری کے سربراہ، پروفیسر ڈیوڈ کولنز کا کہنا ہے کہ یہ بایوپرنٹنگ سسٹم خلیات کو ان کی قدرتی ترتیب میں رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جو موجودہ تھری ڈی بایوپرنٹرز میں ممکن نہیں۔
یہ نظام صوتی لہروں کے ذریعے کمپن پیدا کرنے والی ببلز کا استعمال کرتا ہے، جس سے خلیات کو مخصوص پوزیشن میں ترتیب دینے میں مدد ملتی ہے۔ اس جدید طریقے سے خلیات کو قدرتی انسانی ٹشوز کی شکل دینے میں نمایاں کامیابی ملی ہے۔
پی ایچ ڈی کے طالب علم کیلم وڈلر، جو اس پروجیکٹ کے مرکزی محقق ہیں، کا کہنا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی تحقیقی شعبے میں بڑی توجہ حاصل کر رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بایوپرنٹنگ کی صلاحیت کو تو تسلیم کیا جاتا ہے، لیکن اب تک اس کے استعمال میں سست رفتاری اور محدودیت دیکھی گئی ہے۔
اس جدید سسٹم سے نہ صرف رفتار میں بلکہ پرنٹ کی درستگی اور تسلسل میں بھی نمایاں بہتری آئی ہے، جو اسے لیبارٹری تحقیق سے کلینیکل ایپلی کیشنز تک کے لیے ایک مضبوط پل بناتا ہے۔